دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی یا ثالثی کونسل کی اجازت درکار ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے پشاور کے شہری کی پہلی بیوی کو حق مہر کی فوری ادائیگی کی خلاف دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کو متوازن بنانے کے لیے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی یا ثالثی کونسل کی اجازت درکار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے شہری محمد جمیل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھیں: بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی پر 11 ماہ قید، ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ
سپریم کورٹ کا پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس مظاہر علی اکبر نے تحریر کیا۔
تفصیلی فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی کو حق مہر فوری ادا کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بغیر اجازت دوسری شادی پر پہلی بیوی کو حق مہر فوری ادا کرنا ہوگا۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ حق مہر معجل ہو یا غیر معجل دونوں صورتوں میں فوری واجب الادا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ مدعی نے دوسری شادی سے قبل نہ تو پہلی بیوی سے اور نہ ہی ثالثی کونسل سے اجازت لی اور حق مہر بھی واجب الادا تھا۔
عدالت نے مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے سیکشن 6 کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 'اس دفعہ کے تحت دوسری شادی کی ممانعت نہیں ہے'۔
فیصلے میں مذکورہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'مذکورہ سیکشن معاشرتی ڈھانچے کو مجموعی طور پر منظم کرنے کے لیے دوسری شادی سے قبل اجازت کی بات کرتا ہے'۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے فیصلے میں کہا ہے کہ اس سیکشن کی خلاف ورزی کے باعث معاشرے میں کئی مسائل جنم لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: دوسری شادی کیلئے مصالحتی کونسل سے اجازت کی شرط لازمی قرار
عدالت نےکہا کہ درخواست گزار حق مہر کی فوری ادائیگی کے فیصلے کے خلاف اپیل میں قابل ذکر وجوہات بیان کرنے سے قاصر رہے، اس لیے درخواست خارج کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اپنی پہلی بیوی کو فوری حق مہر ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
یاد رہے 24 جون 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک کیس کا 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے دوسری شادی کے لیے مصالحتی کونسل کی اجازت کو ضروری قرار دیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ بیوی کی اجازت کے باوجود مصالحتی کونسل انکار کردے تو دوسری شادی پر سزا ہوگی۔
مذکورہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے مطابق اجازت کے بغیر شادی کرنے والے شخص کو سزا اور جرمانہ ہوگا۔