• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

وزیر خوراک نے آٹے کے بحران کی ذمہ داری ذخیرہ اندوزوں پر ڈال دی

شائع August 26, 2020
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام نے آٹے کے حالیہ بحران کی ذمہ داری ذخیرہ اندوزوں پر ڈال دی۔

اسلام آباد میں وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ چینی اور آٹے کا حلیہ بحران چند ماہ پہلے شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ گندم کی فضل کی ابتدائی قیمت 1360 روپے فی من اور فروری میں قیمت بڑھا کر 1400 روپے کردی گئی۔

مزید پڑھیں: آٹے کا بحران پیدا کرنے میں 204 فلور ملز ملوث ہیں، محکمہ خوراک

فخر امام نے کہا کہ اس دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوا جس کے باعث مقامی مارکیٹ اور عالمی منڈی میں قیمت میں غیرمعمولی فرق دیکھنے میں آیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کم سے کم سپورٹ پرائز اور انٹرنیشنل پرائز میں فرق کا فائدہ ذخیرہ اندوزوں نے اٹھایا اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں گندم 1800 سے 1900 روپے فی من فروخت ہونے لگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے برس 7.2 ملین ٹن چاول پیدا ہوا تھا اور ڈھائی ارب ڈالر کے چاول کی مصنوعات برآمد کی گئیں اس لیے ہمیں چاول کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔

فخر امام نے کہا کہ حکومت نے آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ستمبر میں درآمدی گندم آنے کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ گندم کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جاری ہے اور قیمتوں میں استحکام کے لیے پنجاب حکومت نے سرکاری گندم سبسڈی پر جاری کی ہے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت ملک میں آٹے کے بحران سے لاعلم

فخر امام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قیمتوں میں اضافے اور ناجائز منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی برداشت نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ ملک میں آٹے اور چینی کے بحران کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے اور مختلف صوبوں میں کہیں آٹا دستیاب نہیں اور کہیں اس کی قیمت عوام کی قوت خرید سے باہر ہے۔

مذکورہ بحران کے پیش نظر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے بغیر 3 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال فروری میں وزیراعظم عمران خان نے چینی اور آٹے کے حالیہ بحران کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'میں چینی اور آٹے کے حالیہ بحران میں حکومت کی کوتاہی کو قبول کرتا ہوں اور بحران پیدا کرنے والے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہوگئی'۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 'تحقیقات کا عمل جاری ہے جس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ پائے گا'۔

پیپلز پارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ لاڑکانہ کو کراچی بناتی، انہوں نے کراچی کو لاڑکانہ بنادیا، شبلی فراز

کراچی میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی ابتر صورتحال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 برس سے سندھ میں حکومت کررہی ہے جبکہ انہوں نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ہمیشہ وفاق پر الزام لگائے۔

انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں کی صورتحال ہمارے سامنے ہے لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور ہسپتال غائب ہیں۔

مزید پڑھیں: شدید بارشوں کے باعث کراچی سمیت سندھ بھر میں سیلابی صورتحال

شبلی فراز نے کہا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ لاڑکانہ کو کراچی بناتے انہوں نے کراچی کو لاڑکانہ بنادیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کراچی کی صورتحال کے بارے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے علاوہ سب جانتے ہیں اور ہم نے کچھ نہیں بلکہ اللہ نے ہی ان کی کارکردگی ظاہر کردی‘۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کی جانب سے بس یہ الزام لگا دینا باقی ہے کہ سندھ میں بارش وفاقی حکومت نے کرائی‘۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ میں قومی اور ملکی مفاد سے متعلق بلز کی مخالفت کرکے اپنے کرپٹ رہنماوں کے مفادات کو بچانے کی کوشش کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024