والدین کی طلاق کس قدر بچوں کو متاثر کرتی ہے ؟
ماجد اور ان کی بیگم کے درمیان مسئلے کافی عرصے سے چل رہے تھے، بات زبانی جھگڑوں سے شروع ہوئی اورپھر آہستہ آہستہ جسمانی جھگڑوں تک پہنچ گئی، بچے اس دوران سب دیکھتے رہے اور مزاج میں اس تلخ ماحول کے اثرات اپنے اندر جذب کرتے رہے۔
اور پھر ایک دن بات یہاں تک پہنچی کہ ماجد نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بچوں کی دنیا سمٹ سی گئی، تاہم اپنی ماں کی دوسری شادی کے بعد بیٹوں کے بعد بیٹیوں نے بھی باپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی، لیکن علحیدگی کے پورے عمل کے دوران شدید ذہنی اور جذباتی توڑ پھوڑ نے چاروں بچوں کی شخصیت کو ابنارمل کر دیا۔
یہ قصہ صرف ماجد اور اس کی بیگم تک محدود نہیں بلکہ حالیہ کچھ سالوں میں پاکستان سمیت کئی ممالک میں گھریلو جھگڑوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور پھر جھگڑے کی بات بڑھ کر طلاق اور خلع جیسے معاملات تک پہنچ جاتی ہے۔
اسی حوالے سے ایک حالیہ میڈیا رپورٹ کے مطابق 2019 سے لیکر 2020 کے وسط تک خاندانی جھگڑوں، طلاق، خلع اور دیگر گھریلو مسائل کے 14 ہزار 943 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اس ایک رپورٹ کے رجسٹرڈ اعداد و شمار کو دیکھنے سے ملک میں گھریلو ناچاقی کے مسائل اور شادی شدہ زندگی کے خاتمے کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کی تربیت میں والد کا کردار اور اس کے اثرات
اس پوری صورتحال میں اہم امر یہ جاننا ہے کے خاندان کی توڑ پھوڑ بچوں اور خصوصی طور پر کم عمر اور نو عمر بچوں پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے؟
ہم اس مضمون میں اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے کہ والدین کی طلاق کس طرح بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
طلاق بچوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟
طلاق جیسی بڑی تبدیلی ہر عمر کے بچوں پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہے، ان میں دودھ پیتے بچوں سے لے کر ٹین ایجرز تک اور نوجوان بچے بھی شامل ہیں، یہ بات فطری ہے کہ ہر بچہ مختلف شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور اس کا رد عمل مختلف ہوسکتا ہے، تاہم عمر کے لحاظ سے عمومی اثرات درج ذیل ہو سکتے ہیں۔
دودھ پیتے بچے ۔ ان میں چڑ چڑا پن، زیادہ رونا، نیند کا متاثر ہونا جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ماں باپ کے ساتھ مشترکہ رہنے کے بعد ماحول اور شیڈول میں تبدیلی ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر کرتی ہے۔
ٹوڈلر یا چلنا سیکھنے والے بچے ۔ اس عمر کے بچے یہ مشکل تصورات سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے تو ماں باپ کا الگ الگ رہنا ان کو اداس کرنے کے ساتھ ساتھ الگ تھلگ رہنے اور پر تشدد رویے جیسے کاٹنے اور مارنے پر ابھار سکتا ہے۔
اسکول جانے والے بچے ۔ اس عمر کے بچے عموما ماں باپ کے الگ ہو جانے کو اپنا قصور سمجھتے ہیں، ان کے اندر یہ خوف بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ ماں یا باپ میں سے جس کے ساتھ وہ رہ رہے ہیں، وہ بھی انہیں چھوڑ جائے گا۔ یہ سوچ ان میں مستقل اداسی یا اینزائٹی کا سبب بن سکتی ہے۔
بڑے ہوتے بچے ۔ یہ بچے والدین کی طلاق پر اپنے آپ کو قصور وار گردانتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ماں باپ دونوں سے کٹ جاتے ہیں یا اسکول اور گھر سے باہر متشددانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بحیثیت والدین بچوں پر اثرات کیسے کم کریں؟
بحیثیت والدین یہ آپ کے لیے لازمی ہے کہ بچوں کو طلاق کے اثرات کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے میں مدد دیں۔
ہر عمر کے بچوں کو یہ یقین دہانی کرانا ضروری ہے کہ طلاق کی وجہ وہ نہیں ہیں اور یہ کہ ماں اور باپ انہیں ہمیشہ محبت کرتے رہیں گے۔
مزید پڑھیں: شادی شدہ جوڑے کس طرح جھگڑے روکیں؟
اس ضمن میں طلاق کی نوبت تک پہنچنے والے والدین درج ذیل اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
الفاظ نہیں عمل ۔ آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ 'ڈیڈی یا ممی آپ کو ابھی بھی پیار کرتے ہیں' مگر یہ الفاظ اسی صورت میں یقین دلائیں گے اگر آپ انہیں عملی صورت میں ڈھال دیں گے چاہے یہ انہیں مسلسل ملنا ہو، انہیں تحائف دینا ہو یا باہر لے جانا ہو۔
پہلے تولیں، پھر بولیں ۔ غصہ، دباﺅ اور منفی جذبات بہت آسانی سے والدین سے بچوں میں منتقل ہو جاتے ہیں، کبھی بھی منفی جذبات جیسے غصہ، ناپسندیدگی، حسد وغیرہ کا اظہار نہ کریں اور نہ ہی اپنے سابق شوہر یا بیوی سے متعلق برے الفاظ نکالیں۔
اگر آپ بولنا یا اپنے منفی جذبات کا اظہار کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کے لیے تنہائی میں کسی قریبی فرد سے بات کریں مگر اپنے بچوں کے سامنے اس طرح کی گفتگو سے گریز کریں۔
کمیونیکیشن جاری رکھیں ۔ آپ کے بچے آپ کو بہت قریب اور غور سے دیکھ رہے ہیں کہ طلاق کے دوران میں ماں باپ کے تعلق میں کیا تبدیلی آ رہی ہے، اپنے بچوں کی صحت اور ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے سابق شریک حیات سے کسی نہ کسی انداز میں رابطے میں رہیں۔ یہ بچوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں معاون ہوگا۔
طلاق کے بعد خصوصی چیلنجز
مجموعی طور پر طلاق تمام فریقین کے لیے تکلیف دہ عمل ہے تاہم اس میں سے بھی دو خصوصی چیلنجز ہیں جو طلاق یافتہ افراد کے گھر میں درپیش ہوتے ہیں۔
نظم و ضبط ۔ جب بچے دو مختلف گھروں، ماحول اور اصول و ضوابط کے تجربے سے مسلسل گزر رہے ہوں تو ان میں نظم و ضبط کے سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بچوں کےساتھ ٹیم ورک کی صورت میں گھر کے اصول طے کریں اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا بھی۔ ہر حال میں اپنے اصول و ضوابط پر مستقل مزاجی سے عمل کرتے رہیں۔
بچوں کو تجربات کا شوق ہوتا ہے یہ والدین کا کام ہے اور اس حوالے سے بچوں کو معاونت فراہم کریں۔
شیڈول یا روٹین بنانا ۔ بچوں کے لیے ایک باقاعدہ شیڈول بنانا اور روز مرہ کی روٹین طے کرنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سوچ سمجھ کر اپنا اور بچوں کا شیڈول بنائیں اور پھر بچوں کو اسے سمجھنے میں مدد فراہم کریں۔
بچوں کے لیے ایک کیلنڈر بنائیں کہ کب بچے ماں کے پاس ہوں گے اور کب باپ کے پاس ہوں گے، یاد رکھیں کہ چھوٹے بچوں کے احساسات نازک اور سوچ ناپختہ ہوتی ہے، اس لیے شیڈول میں بار بار تبدیلی بچوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔
فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کاؤنسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے ساتھ [email protected] اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔