• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

شہزاد اکبر کو مشیر کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست مسترد

شائع August 26, 2020
وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر — فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہزاد اکبر کے بطور وزیراعظم کے مشیر تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے شہزاد اکبر کی بطور مشیر اور حکومت پاکستان کے اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کے خلاف درخواست پر گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ آج سنایا۔

خیال رہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ روز ایڈووکیٹ پرویز ظہور کی شہزاد اکبر کے تقرر کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، مذکورہ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ شہزاد اکبر کی تعیناتی کالعدم قرار دی جائے ساتھ ہی یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس عیسیٰ بھی وزیراعظم کے ساتھی کی اسناد اور ان کی بطور مشیر احتساب تقرر پر سوال اٹھا چکے ہیں۔

شہزاد اکبر پہلے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب تھے لیکن گزشتہ ماہ انہیں مشیر برائے احتساب و داخلہ تعینات کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کسی کو بھی مشیر مقرر کرسکتے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ وزیر کی حیثیت کے ساتھ مشیر کا تقرر انہیں 1973 کے رولز کے تحت وزیر کی حیثیت سے کام کرنے کا اختیار نہیں دیتا، 1973 کے رولز واضح طور پر سیکریٹری کو ڈویژن/وزارت کا سربراہ قرار دیتے ہیں اور وہ اپنی مؤثر انتظامیہ، نظم و ضبط اور وفاقی حکومت کی جانب سے کام کو صحیح انداز میں کرنے کا ذمہ دار ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بیورو قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999 کے تحت قائم کیا گیا اور آئین کے آرٹیکل 93 کے تحت تعینات ہونے والے مشیر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ 1999 کے آرڈیننس کے تحت بیورو کو جو اختیارات ہیں ان میں براہ راست یا بالواسطہ، ہدایات، حکم دیں یا کسی قسم کی مداخلت کریں۔

فیصلے کے مطابق اسی طرح وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کا قیام وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایکٹ 1974 کے تحت کیا گیا، لہٰذا یہ بھی مشیر کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ ایجنسی کے معاملات میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کریں۔

عدالت کے مطابق 1973 کے قانون کی خلاف وزری میں مداخلت کالعدم ہوگی اور یہ مشیر کے دفتر سے تجاوز ہوگا۔

عدالت عالیہ کے 9 صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے ایسا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا جو شہزاد اکبر کے قومی احتساب بیورو کے امور میں مداخلت کو ثابت کرے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان صدر مملک کو وزیراعظم کے مشورے پر زیادہ سے زیادہ 5 مشیر تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے جبکہ یہ وزیراعظم کا صوابدید ہے کہ وہ اپنے لیے کس کو مشیر مقرر کریں، فیصلے کے مطابق وزیراعظم کے مشیر کے تقرر کے لیے اہلیت کا کوئی معیار مقرر نہیں۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں اس وقت 5 مشیر اور 14 معاونین ہیں۔

درخواست گزار کے اس اعتراض کہ مشیر وفاقی کابینہ یا پارلیمنٹ کے اجلاس میں بیٹھنے کے لیے 'اہل نہیں ہیں' پر عدالت عالیہ نے کہا کہ مشیر کو بولنے کا اختیار ہے اور دوسری صورت میں وہ ایوان کے اجلاس کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن وہ ووٹ نہیں دے سکتے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مشیر وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہے اور وہ اس کے اجلاس میں شرکت بھی نہیں کرسکتے سوائے تب جب وزیراعظم کو ان کی ضروت ہو اور اس کے لیے انہیں خصوصی دعوت دی گئی ہو۔

یہ بھی پڑھیں: شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل، وزیر اعظم کے مشیر مقرر

مزید برآں فیصلے میں کہا گیا کہ مشیر حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے کا 'مجاز' نہیں ہے۔

اثاثہ جات برآمدگی یونٹ سے متعلق اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ شہزاد اکبر کی بطور سربراہ اے آر یو تعیناتی کا معاملہ یہاں نہیں دیکھا جاسکتا، یہ معاملہ سپریم کورٹ میں اٹھایا جاچکا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اے آر یو کے معاملے پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے کہا کہ توقع ہے کہ مرزا شہزاد اکبر بطور مشیر آئین و قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے، جس کے بعد عدالت عالیہ نے مرزا شہزاد اکبر کی تعیناتی کے خلاف درخواست کو آبزرویشنز کے ساتھ نمٹا دیا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024