• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

قومی اسمبلی سے منظور شدہ انسداد منی لانڈرنگ سمیت دو بل سینیٹ میں مسترد

شائع August 25, 2020 اپ ڈیٹ August 26, 2020
اپوزیشن نے حکومتی بل مسترد کردیا—فائل/فوٹو:ڈان
اپوزیشن نے حکومتی بل مسترد کردیا—فائل/فوٹو:ڈان

سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے بیان پر اپوزیشن اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے منظور شدہ 2 اہم بلوں کو مسترد کردیا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، اپوزیشن نے وقفہ سوالات مؤخر کرنے پر ایوان میں احتجاج کیا اور واک آؤٹ کیا۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ وقفہ سوالات مؤخر کرنا درست عمل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق مزید دو بل منظور کرلیے

سابق چیئرمین رضا ربانی کا کہنا تھا کہ جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق بل بلڈوز کرنا ہی ہے تو سوالات کو مؤخر کیوں کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت احتساب سے کیوں بھاگ رہی ہے۔

سینیٹ میں کورم پورا نہ ہونے پر اراکین کو جمع کرنے کے لیے 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں جبکہ اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا جس پر کارروائی آدھے گھنٹے کے لیے معطل کردی گئی۔

سینیٹ کا اجلاس جب دوبارہ شروع ہوا تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن سینیٹر کلثوم پروین نے محرم الحرام کے دوران موبائل سروس معطل کرنے کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران تین دن موبائل فون بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس طرح کے فیصلے پہلے بھی ہوئے ہیں۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ جہاں سے ماتمی جلوس نکلیں صرف وہاں سروس معطل کی جائے، پورے ملک کو بند کیا جائے گا تو کچھ حادثات ویسے ہی ہوجائیں گے۔

'احمد فراز کا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے'

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ احمد فراز نے جو بات کی تھی آج وہ پاکستان کہاں کھڑا ہے، قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کے اندر تبدیل ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گھر صاف کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، مشاہد حسین

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں مرتب نہیں ہوتی، آج پاکستان کا شہری اپنے آپ کو وطن سے الگ سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات ایسے بن رہے ہیں کہ لوگ شدت سے باہر نہ نکل آئیں۔

وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ اسلام آباد دارالحکومت وقف املاک بل 2020 اور انسداد منی لانڈرنگ بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان بلوں کی ڈیڈ لائن بہت قریب آگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بل پاکستان صرف تحریک انصاف کے نہیں ہیں، 22 سے زیادہ اجلاس ہوئے جس میں اپوزیشن ارکان نے بھی شرکت کی۔

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ یہ کسی سیاسی جماعت کا معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، بھارت کی لابی کی وجہ سے ہم گرے لسٹ میں گئے اور اب اسی لابی کی جانب سے کوشش جاری ہے کہ ہم بلیک لسٹ میں جائیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی بینچوں کے پاس اکثریت نہیں ہے، اس لیے جب تک دونوں فریق اکٹھے نہیں ہوں گے یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ بابر اعوان کہتے ہیں کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جبکہ قائد ایوان نے کہا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ قائد ایوان نے قرار دیا کہ یہ مسئلہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

اپوزیشن کا احتجاج، بل مسترد

اس موقع پر قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ جب بھی منی لانڈرنگ کا نام آتا ہے تو یہ اس طرح کیوں ہوجاتے ہیں، کیا منی لانڈرنگ سے محبت ہے یا پھر چڑ ہے۔

قائد ایوان اور پی پی پی سینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تو قائد ایوان نے انہیں ایوان سے نکلنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ اسلام الدین شیخ نوکری بنا رہا ہے، اس لیے انہیں نوکری بنانے دو۔

قائد ایوان کے بیان پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے 5 ماہ کا اضافی وقت مل گیا

اس موقع پر حکمران جماعت کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پہلے بتا دیں کہ بے بی بلاول ہے جو عمر میں ہم سے 10 سال چھوٹا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف پر بلیک میل کر رہی ہے، یہ نیب بل میں 14 ترامیم لے آئے کہ ہمیں چوری کرنے دو۔

اپوزیشن نے فیصل جاوید کے الفاظ پر ایوان میں احتجاج کیا اور سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ آپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو صبح شام گری ہوئی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ ہم نے پاکستان کے لیے تعاون کیا تھا۔

سینیٹ میں اپوزیشن نے سابق صدر آصف زرداری اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے متعلق قائد ایوان کے بیان پر شدید احتجاج کیا اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ انسداد منی لانڈرنگ اور دارالحکومت وقف املاک بل مسترد کردیا۔

سینیٹ اجلاس میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے بیان پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور اپوزیشن ارکان نے بلوں کی منظوری قائد ایوان کے معافی مانگنے سے مشروط کردی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ ایوان کے اندر پارٹی قیادت پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک یہ الفاظ واپس نہیں لیے جاتے بلوں کی منظوری کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومتی ارکان جان بوجھ کر ایوان کا ماحول خراب کر رہے ہیں۔

قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اپوزیشن کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لینے سے انکار کردیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024