• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وڈیرہ ذہنیت بلدیاتی نظام نہیں چاہتی، کراچی کو اے ٹی ایم مشین بنا دیا ہے، وسیم اختر

شائع August 24, 2020
وسیم اختر نے کہا کہ خدارا اس کماؤ پوت کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اسے بچا لیں — فوٹو: ڈان نیوز
وسیم اختر نے کہا کہ خدارا اس کماؤ پوت کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اسے بچا لیں — فوٹو: ڈان نیوز

میئر کراچی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما وسیم اختر نے الزام عائد کیا ہے کہ شہری گزشتہ 4 سال سے حکومت سندھ کی مجرمانہ غفلت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور وڈیرہ ذہنیت بلدیاتی نظام نہیں چاہتی، صوبائی حکومت نے شہر کو اے ٹی ایم مشین بنا دیا۔

انہوں نے کے ایم سی صدر دفتر میں بحیثیت میئر کراچی 4 سالہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید الزامات لگائے کہ اب یہی لوگ اس شہر کو تقسیم کرنے کے در پے ہیں، اب معاملہ سیاست سے اوپر جاچکا۔

وزیر اعظم خود یہاں آکر صورتحال دیکھیں، وسیم اختر

میئر کراچی نے شہریوں سے مطالبہ کیا کہ اس نا انصافی پر کراچی کے شہری سیاسی وابستگی کو چھوڑ کر متحد ہوجائیں، وزیر اعظم نے این ڈی ایم اے کو بھیج دیا میں کہتا ہوں وہ خود یہاں آکر صورتحال دیکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست کو چھوڑیں یہاں لوگ مر رہے ہیں، بد ترین حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، بطور میئر جو محکمے مجھے کے ایم سی میں ملے انہیں چار سال میں فعال بنایا، اگر کسی کو ناکامی نظر آتی ہے تو یہ میری نہیں بلکہ سندھ حکومت اور آئین کے آرٹیکل 140-A کی ناکامی ہے۔

مزید پڑھیں: 'کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں، لگتا ہے سندھ اور مقامی حکومت کی شہریوں سے دشمنی ہے'

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سال سندھ حکومت کی سرد مہری کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا رہا ہوں، حالانکہ میرے پاس 3 کروڑ افراد کا مینڈیٹ ہے اتنا مینڈیٹ وزیراعلیٰ سندھ کو بھی نہیں ملا، پوری دنیا میں میئر کی بڑی اہم حیثیت ہوتی ہے مگر یہاں صوبائی حکومت نے ہر جگہ اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔

وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اگر نیت ٹھیک ہو تو کراچی میں کام کرنے کے مواقع بہت ہیں، بیرون ملک سے لوگ یہاں سرمایہ لگا سکتے ہیں مگر ہمارے ارباب اقتدار رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ استعفیٰ کمزور لوگ دیتے ہیں مگر میں نے چیلنج قبول کیا اور سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے ہرسطح پر آواز اٹھاتا رہا، زبانی اور تحریری طور پر سب سے التجا کی اور ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں آئندہ بھی اگر موقع ملا تو اس شہر کی خدمت کرتا رہوں گا۔

خیال رہے کہ اس موقع پر وسیم اختر کے ساتھ ڈپٹی میئر کراچی سید ارشد حسن، سٹی کونسل میں پارلیمانی لیڈر اسلم شاہ آفریدی، سٹی کونسل کی مختلف کمیٹیوں کے چیئرمین اور چیئر پرسنز کے علاوہ محکمہ جاتی سربراہان بھی موجود تھے۔

بلدیاتی اداروں کی 4 سالہ کار کردگی

قبل ازیں میئر کراچی وسیم اختر نے 2016 سے 2020 تک بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مختلف محکموں کے تحت انجام پانے والے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔

میئر کراچی نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور وسائل کے حوالے سے ہر قسم کی معلومات حاصل کرنا کراچی کے شہریوں کا حق ہے، میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بلدیاتی محکموں کی صورت میں جو وراثت ملی اور انتہائی ابتر اور غیر فعال تھی مگر ہم نے حوصلہ نہیں ہارا اور نئے عزم کے ساتھ شہر کی ترقی کا سفر شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: میئر کراچی نے مصطفیٰ کمال کو ’پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج‘ تعینات کردیا

ان کا کہنا تھا کہ متعدد محکموں کو فعال بنایا اور اہم اقدامات کے ذریعے شہریوں کو سہولیات فراہم کیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کا چارج سنبھالا تو عمارت کئی سالوں سے بند ہونے کی وجہ سے خستہ حال ہوچکی تھی اور فوری طور پر اس کی تزئین و آرائش کا عمل شروع کیا گیا۔

وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے کے ایم سی کے ٹاور پر نصب گھڑیال خراب تھا جسے دوبارہ قابل استعمال بنایا گیا، تمام وائرنگ کو درست حالت میں لایا گیا، وائے فائے کی سہولت مہیا کی گئی اور فرنیچر اور اسٹیشنری کی دستیابی یقینی بنائی گئی۔

میئر کراچی کا کہنا تھا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے صدر دفتر میں سیکیورٹی انتظامات کو بہتر بناتے ہوئے بڑی تعداد میں سیکیورٹی کیمرے نصب کروائے گئے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان رابطے کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیلی کمیونیکیشن کے نظام کو جدید بنایا گیا اور گزشتہ 4 سالوں کے درمیان اسے اپ گریڈ کیا گیا۔

وسیم اختر نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام ہسپتالوں کی صورتحال انتہائی خراب تھی، نہ ہی ادویات اور آلات دستیاب تھے اور نہ ہی ڈاکٹرز اور پیرامیڈک عملہ موجود تھا، یہاں تک کہ جان بچانے کے لیے آکسیجن سلنڈرز بھی موجود نہیں تھے۔

میئر کراچی نے بتایا کہ آکسیجن گیس کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے آپریشن تھیٹرز میں آکسیجن کی فراہمی معطل تھی، اس صورتحال میں مریضوں خصوصاً غریب ور متوسط طبقے کی شکایت اور پریشانی فطری تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فوری اقدامات کیے اور کے ایم سی کے ہسپتالوں کو ادویات، آلات اور مشینیں فراہم کیں اور ڈاکٹرز سمیت پیرامیڈکس عملے کو ڈیوٹی کا پابند بنایا جس کی وجہ سے ہسپتالوں کا معیار بہتر ہوا۔

مزید پڑھیں: میئر کراچی کی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے طبی عملے سے تعاون کی درخواست

وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ہماری کوششوں سے 10 سال کے وقفے کے بعد کے ایم سی کے ہسپتالوں کو 7 کروڑ 70 لاکھ روپے مالیت کی ادویات فراہم کی گئیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل پیپلزپارٹی کی انتظامیہ نے ماضی میں ادویات فراہم نہیں کی تھیں جبکہ ان ہسپتالوں کو 10 برس بعد آلات بھی فراہم کیے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عباسی شہید ہسپتال کراچی کا تیسرا بڑا ہسپتال ہے جہاں شعبہ حادثات کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور اس وقت وسائل کی کمی کے باعث مخیر حضرات سے درخواست کرکے ان سے کام کروایا، اس میں بحریہ ٹاؤن نے ہماری مدد کی۔

وسیم اختر نے کہا کہ اس ہسپتال میں چائلڈ لائف فاؤنڈیشن ایمرجنسی سینٹر قائم کیا گیا جو 24 گھنٹے فعال رہتا ہے، عباسی شہید ہسپتال کو آلات سے لیس ایمبولینس فراہم کی گئی۔

کیماڑی کو ڈسٹرکٹ بنانا غیرقانونی ہے، میئر کراچی

میئر کراچی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بلدیاتی اختیارات کے حوالے سے ہماری پٹیشن کا فیصلہ ہی کراچی کے مسائل کی اصل کنجی ہے، عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ جلد ازجلد اس حوالے سے ہماری پٹیشن کو نمٹائے۔

انہوں نے کہا کہ چار سال تک تمام ارباب اختیار کو کراچی اور کے ایم سی کے مسائل پر خط لکھے کسی ایک کا جواب نہیں آیا اس کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا، ہمیں جو محکمے ملے بس انہیں میں بہتری لانے کی کوشش کرتے رہے، 4 سال تک SLGA-2013 میں ترمیم کے لیے مکمل جنگ لڑی ہے اگر میں آواز نہ اٹھاتا تو پورا ملک اور دنیا ہماری طرف متوجہ نہ ہوتی۔

مزید پڑھیں: میئر کراچی نے کے ایم سی کی اراضی واگزار کرانے کیلئے رینجرز سے مدد طلب کرلی

ان کا کہنا تھا کہ ہم بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے بھر پور جنگ لڑرہے ہیں، کراچی کو گزشتہ چار سال کے دوران جو بھی ملا اس میں میری اور میری جماعت کی محنت شامل تھی مگر کراچی اس سے کہیں زیادہ کا حقدار ہے، 4 سال سے صوبائی اے ڈی پی کے لیے اسکیمیں بھیج رہا ہوں ایک بھی منظور نہیں ہوئی یہ کراچی دشمنی نہیں تو کیا ہے؟

میئر کراچی نے کہا کہ فنڈز کے حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ جب سے میئر بنا ہوں مجھے صرف ایک مرتبہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر نالوں کی صفائی کے لیے 50 کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں باقی سب جھوٹ ہے، ثابت ہوگیا کہ کراچی کے نالے اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتے جب تک ان کی صفائی کے لیے مستقل حل نہ نکالا جائے وزیر اعلیٰ سندھ نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ کے ایم سی کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہماری پیٹشن کورٹ میں موجود ہے، کیماڑی کو ڈسٹرکٹ بنانا غیرقانونی کام ہے، سندھ حکومت نے نہ تو اس کے لیے عوام سے رائے لی اور نہ ہی منتخب نمائندوں سے مشورہ کیا، ماضی میں ملیر اور کورنگی ڈسٹرکٹ بنانے کا ناکام تجربہ کیا گیا اب بھی ناکامی ہوگی۔

وسیم اختر نے یاد دلایا کہ پورے ملک کے دیگر بڑے شہروں میں صرف ایک ڈسٹرکٹ ہے پھر کراچی کا کیا قصور ہے اگر اس کا شوق ہے تو عوام سے ریفرنڈم کرالیا جائے سب پتا چل جائے گا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں، ماضی کے غلط فیصلوں کا دوہرایا نہ جائے تو بہتر ہوگا۔

میئر کراچی نے کہا کہ کراچی کے ساتھ شدید ظلم کیا گیا ہے، چار سال میں سندھ حکومت سے ADP اسکیم کی مد میں ملنے والی رقم میں 6 ارب کا شارٹ فال آچکا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ کراچی کو سنجیدگی سے لے، یہ شہر پورے ملک کو پالتا ہے اس لیے خصوصی اور انفرادی سلوک کا حقدار ہے، خدارا اس کماؤ پوت کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اسے بچا لیں۔

بلدیاتی حکومت کی 4 سالہ مدت مکمل

خیال رہے کہ 29 اگست کو بلدیاتی حکومت کی مدت مکمل ہو رہی ہے جس کے بعد انتظامی معاملات چلانے کے لیے صوبائی حکومت کے فیصلے کے مطابق ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ وسیم اختر 24 اگست 2016 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے 30 اگست کو عہدے کا حلف اٹھایا تھا، انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے بھی جیل سے لایا گیا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے وسیم اختر، ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزامات کے تحت اِن دنوں جیل میں تھے، انھیں 19 جولائی 2016 کو انسداد دہشت گردی عدالت کے حکم پر گرفتارکیا گیا تھا جبکہ انہوں نے 25 سے زائد دہشت گردی کے مقدمات میں ضمانت لے رکھی تھی۔

میئر کے انتخاب کے لیے 305 میں سے 294 ڈالے گئے جن میں سے ایم کیو ایم کے امیدوار وسیم اختر کو 208 ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار کرم اللہ وصی نے 86 ووٹ حاصل کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر بلدیات سندھ کو ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کے اختیارات سونپ دیے گئے

کراچی کے میئر منتخب ہونے کے بعد وسیم اختر نے کہا تھا کہ 'میں ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ کراچی کا میئر ہوں اور اس ناطے ہم مل کر شہر کے لیے کام کریں گے'۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ وسیم اختر اپنی 4 سالہ مدت کے دوران شہر میں ترقیاتی کاموں اور دیگر معاملات، جس میں صفائی ستھرائی کا نہ ہونا بھی شامل ہے، کے حوالے سے متعدد مرتبہ تنقید کی زد میں رہے تاہم وہ اس دوران پی پی پی کی صوبائی حکومت پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ ان کو شہر میں کام کرنے کے لیے مکمل اختیارات نہیں دیئے گئے جبکہ وہ فنڈز کی کمی کی شکایت بھی کرتے رہے ہیں تاہم اب 29 اگست کو ان کی مدت مکمل ہورہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024