9 سالہ سرفر وینس بلوچ کی کہانی
پُراعتماد نظر آنے والی اس کمسن سرفر کو اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ ان کی تصاویر اتنی جلدی اس طرح وائرل ہوجائیں گی۔ سوشل میڈیا پر اسے سرفنگ کی شوقین 9 سالہ بلوچ لڑکی بتایا گیا ہے۔
اگرچہ وینس بلوچ کی عمر ساڑھے 9 برس ہے، لیکن عام خیال کے برعکس ان کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔ وینس پاک ایران سرحد پر واقع شہر چاہ بہار سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان میں ان کے چند رشتہ دار رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بلوچستان کے شہر گوادر، پنجگور اور تربت دیکھنے کا موقع ملا۔
وہ ان تصاویر میں چاہ بہار کے رامِن ساحل پر سرفنگ کرتے نظر آتی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ گوادر کا ساحل سرفنگ کے لحاظ سے بہت ہی شاندار ہے، اگرچہ انہوں نے ابھی تک اس ساحل پر سرفنگ نہیں کی لیکن مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
وینس ایران کے اوشیئن سرف اسکول کی سب سے کم عمر طالبہ ہیں۔ وینس صرف بلوچی اور فارسی بولنا جانتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 'میں نے 8 برس کی عمر میں سرفنگ کا آغاز کیا۔ مجھے وہ لمحہ اب بھی یاد ہے جب میں نے پہلی بار سرفنگ کی تھی۔ وہ ایک بڑا ہی مزیدار تجربہ تھا۔ آپ پانی کی سطح پر متحرک ہوتے ہیں۔ میں شروع میں تھوڑا ڈری ہوئی تھی لیکن سرفنگ اتنی دلچسپ سرگرمی تھی کہ میرا خوف ہی ختم ہوگیا'۔
ان کے لیے سرفنگ تو ایک نئی چیز ہوسکتی ہے لیکن سمندر سے ان کی محبت بہت پرانی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے سمندر بہت پسند ہے۔ میں جب بہت چھوٹی تھی تب سے اپنے والد کے ساتھ ساحل پر آ رہی ہوں'۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ‘میرے والدین اور چچا زبردست سرفر ہیں اس لیے سرفنگ کی دنیا زیادہ کٹھن محسوس نہیں ہوئی'۔
وینس کے والد انٹرنیشنل کوچنگ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے قومی کھیلوں کے مقابلوں میں 2 بار پانچویں پوزیشن حاصل کرچکے ہیں۔ وینس جس اسکول میں سرفنگ کی تربیت لے رہی ہیں اسے ان کے والد عبدالرحمٰن بلوچ چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ایک طرح سے ایران میں سرفنگ کی بنیاد ڈالنے والے ہم ہی لوگ ہیں۔ سرفنگ کے شعبے سے وابستہ ہوئے ہمیں تقریباً 10 برس گزر چکے ہیں'۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'ایران اب کافی بدل چکا ہے۔ لوگ اکثر میرے اور میری اہلیہ اور بیٹی کے سرفر ہونے سے متعلق کافی سوال پوچھتے ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کی سوچ کے زاویے میں کافی تبدیلی آچکی ہے اور ہم دیگر لڑکیوں کو بھی سرفنگ کی طرف متوجہ کر رہے ہیں'۔
ان کا کہنا ہے کہ 'جی ہاں، خواتین کو مناسب انداز میں خود کو ڈھانپنا ضروری ہے کیونکہ یہاں اس حوالے سے پابندیاں لاگو ہیں، اور میری اہلیہ اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ مگر جہاں تک وینس کا تعلق ہے تو وہ ابھی کافی چھوٹی ہے۔ چند برسوں بعد سرفنگ کرتے وقت اسے بھی حجاب کوسٹیوم پہننا پڑے گا۔ یہاں خواتین کے کھیلوں پر تو کوئی پابندی عائد نہیں لیکن حجاب کو لازمی قرار دیا گیا ہے'۔
وینس بڑی ہوکر عالمی معیار کی سرفر بننا چاہتی ہیں۔ کمسن سرفر نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتایا کہ 'مجھے سرفنگ پر اچھی گرفت حاصل ہے۔ جلد ہی میں علاقائی اور قومی سطح کے ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کی کوشش کروں گی'۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سرفنگ کے دوران کیا انہیں کبھی کسی خطرے کا سامنا ہوا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک بار وہ بُری طرح زخمی ہوتے ہوتے رہ گئیں اور اس دن قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ 'ایک بار ایک بڑی ٹوٹی ہوئی لہر، جسے وائٹ واٹر بھی پکارا جاتا ہے، میری طرف بڑھی اور اچانک سے مجھے نگل لیا جس کے بعد اس نے مجھے ایسے گھومایا جیسے میں کسی واشنگ مشین میں گھوم رہی ہوں۔ اس لہر نے مجھے اپنے ساتھ پکڑے رکھا۔ میں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور خوش قسمتی سے میں خود کو اوپر لانے میں کامیاب رہی لیکن وہ بہت ہی ڈراؤنا تجربہ تھا'۔
اپنی وائرل ہونے والی تصاویر کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ 'مجھے بہت خوشی ہے کہ میری تصاویر نے لوگوں کی توجہ حاصل کی کیونکہ پہلے مجھے اتنے زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے جتنا کہ آج جانتے ہیں۔ میری سرفنگ میری وجہ شہرت بن رہی ہے'۔
یہ مضمون 23 اگست 2020ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں