شراب برآمدگی کیس: 'میرے لیے مشکل اور اذیت سے بھرا ہوا وقت ختم ہوا'
پاکستان کی معروف اداکارہ عتیقہ اوڈھو 9 سال بعد شراب برآمدگی سے متعلق کیس میں باعزت بری ہوگئیں اس حوالے سے اداکارہ نے کہا ہے کہ ان کے لیے مشکل اور اذیت سے بھرا ہوا وقت ختم ہوگیا۔
اداکارہ کے خلاف مقدمہ 9 برس 2 ماہ تک چلا اور اس مقدمے میں 210 پیشیاں ہوئیں جبکہ 16 ججز تبدیل ہوئے تھے۔
اس حوالے سے عرب ویب سائٹ 'اردو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ جو فیصلہ آیا وہ عوامی مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیس صرف مجھ سے متعلق نہیں تھا بلکہ مجموعی طور پر عدالتی نظام کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہر پاکستانی کا کیس تھا کہ وہ عدالتوں سے کیا امیدیں رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شراب برآمدگی کیس: عتیقہ اوڈھو 9 سال بعد باعزت بری
اداکارہ نے مزید کہا کہ میں ہمیشہ عدالتوں کی عزت کرتی رہی ہوں اور قانون کی پیروی اور انہی عدالتوں نے مجھے انصاف دیا۔
عتیقہ اوڈھوکا کہنا تھا کہ جن حالات کا سامنا میں نے کیا وہ سب کے سامنے ہے اس حوالے سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ میں عدالتوں میں بھی سب کے سامنے جاتی تھی لیکن اس معاملے پر کبھی بات نہیں کی مگر لوگوں نے اس حوالے سے کھل کر بات کی اور میرے خلاف کیس کو ناانصافی قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ تاریخی ہے اور اسے اس وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ ایک جھوٹا کیس تھا، اس کیس میں درجن سے زائد ججز تبدیل ہوئے اور 200 سے زائد پیشیاں ہوئیں۔
ایک سوال کے جواب میں عتیقہ اوڈھو نے اپنے خلاف کیس بننے سے متعلق بات کرنے سے انکار کیا اور جواب دیا کہ جسے دلچسپی ہے وہ عدالت سے ریکارڈ لے کر ضرور دیکھے۔
انہوں نے کہا کہ میں صرف فیصلے پر توجہ مرکوز کروں گی کیونکہ میرے لیے مشکل اور اذیت سے بھرا ہوا وقت ختم ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: عتیقہ اوڈھو شراب برآمدگی کیس میں بری
کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ مجھے اتنا عرصہ اذیت سے گزرنا پڑا، یہ زیادتی تو تھی اور جن جج صاحب نے میرے حق میں فیصلہ دیا ان کی تعریف بھی بنتی ہے۔
عتیقہ اوڈھو نے عدلیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا تو وہ یقین رکھیں کہ انصاف ملتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اداکارہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے پسِ منظر میں موجود کرداروں کے نام نہیں لینا چاہوں گی لیکن یہ میڈیا کہ ذمہ داری ہے کہ ان سے بات کرے کہ ایک خاتون پر یہ ظلم کیوں کیا گیا۔
واضح رہے کہ جون 2011 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عتیقہ اوڈھو کے سامان سے شراب کی دو بوتلیں برآمد ہونے کے باوجود ان کی رہائی پر از خود نوٹس لیا تھا۔
ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس نے عتیقہ اوڈھو کے سامان سے مبینہ طور پر شراب برآمد ہونے پر انہیں اسلام آباد سے کراچی جانے والی فلائٹ پر سوار ہونے سے روک دیا تھا تاہم بعد ازاں اے ایس ایف نے انہیں ایک ’بااثر شخصیت‘ کے کہنے پر جانے دیا تھا۔
جس پر عدالت عظمیٰ نے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ عتیقہ اوڈھو سے متعلق رپورٹ پیش کریں کہ انہیں ایف آئی آر درج کیے بغیر کیوں جانے دیا گیا، عدالت نے نشاندہی کی تھی کہ اداکارہ کی رہائی امتیازی سلوک ہے۔
مزید پڑھیں: شراب برآمدگی کیس: عتیقہ اوڈھو کی سپریم کورٹ سے مداخلت کی استدعا
بعدازاں 2015 میں اس کیس کی سماعت راولپنڈی کی سول کورٹ میں کی گئی تھی اور انہیں بری کردیا گیا تھا۔
تاہم اس مقدمے پر دوبارہ کارروائی شروع ہوئی تھی اور 2017 میں اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی جمع کرائی گئی تھی کہ کوئی بھی ٹرائل کورٹ ان کے خلاف شراب برآمدگی کیس کو میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیکھ رہی۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ ٹرائل کورٹ کو قانون کے مطابق فیصلے دینے کی ہدایت دی جائے۔
عدالت نے متعلقہ ٹرائل کورٹ کو اُس وقت تک کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز راولپنڈی کی سول عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا تھا۔