حاصل بزنجو: جنہوں نے ملامتی زندگی پر موت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا
عرصہ ہوا، ایک دن پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں میں حاصل بزنجو نظر آگئے۔ میں نے پوچھا، ’کامریڈ اس ملک کا کیا ہوگا؟‘
’کچھ نہیں ہوگا‘، حاصل بزنجو نے کہا۔
’کیا ملک ایسے چلتا ہے؟‘
میرے سوال پر کہا ‘کیا صومالیہ نہیں چل رہا’۔
ان کے اس جواب نے مجھے لاجواب کردیا، اور پوچھنے کے لیے اب میرے پاس کچھ نہیں تھا۔
ایک دھیمے انداز والے حاصل بزنجو کو انتہائی اشتعال میں صرف ایک بار دیکھا، جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد ناکام ہوئی۔ حاصل خان بزنجو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چیئرمین کے امیدوار تھے، بظاہر جو اعداد و شمار تھے، اس حساب سے ان کی کامیابی یقینی تھی، لیکن وہ ہار گئے۔
صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین کی نشست پر جا بیٹھے تو سوا تین منٹ کی تقریر میں حاصل بزنجو کے پہلے الفاظ تھے کہ ‘میں کس کو مبارکباد دوں؟ آج اس ایوانِ بالا کا منہ کالا ہوگیا ہے‘۔
وہ بتا رہے تھے کہ ’میں جس سے ووٹ مانگتا مجھے سینیٹرز کہتے کہ ‘حاصل خدا کی قسم تم اچھے آدمی ہو لیکن ہم مجبور ہیں’۔ حاصل کہتے رہے کہ اس ملک پر رحم کرو۔ ان کی مختصر تقریر کسی کو یاد نہیں، لیکن یوٹیوب پر تلاش کرلیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک دھیما شخص اپنی شکست نہیں لیکن جمہوریت کی پامالی پر کس طرح بھڑک اٹھا تھا۔
حاصل بزنجو میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے تھے، لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے والد کی شخصیت کو چھتری بناکر کر وقت کی دھوپ سے بچنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جو کچھ بھی کیا اپنے بل بوتے پر کیا، اور آخر میں اپنے والد کی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی کو نیشنل پارٹی میں تبدیل کرکے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے انداز کی سیاست شروع کی۔
حاصل بزنجو کو تحریک عدمِ اعتماد کے دوران چیئرمین کے عہدے پر جس سینیٹ نے شکست دی، ان کی تدفین کے دن نہ صرف اسی ایوانِ بالا نے بلکہ ایوانِ زیریں نے بھی انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔
وہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد میں متفقہ امیدوار تھے، لیکن ان جماعتوں کے ارکان نے ان سے دغا کردیا۔ انہیں معلوم تھا کہ کس کس سینیٹر نے انہیں ووٹ نہیں دیا، لیکن یہ راز وہ اپنے ساتھ لے گئے، اور ان کو بے توقیر نہیں کیا جنہوں نے ملک کی جمہوریت کو بے توقیر کرنے کے لیے اپنے کندھے فراہم کیے تھے۔
مصنوعیت سے پاک ایک پارٹی کا سربراہ میر حاصل بزنجو چاہتے تو سینیٹ کے اخراجات سے اپنی بیماری کا علاج بیرونِ ملک کروا سکتے تھے، لیکن انہوں نے اس چیئرمین سے اپنی بیماری کے لیے رقم لینا منظور نہیں کی، جس کی جیت اور اپنی شکست کے وقت انہوں نے کہا تھا کہ ’بقول شاعر ایک ہی جان ہے، تو لے یا خدا لے’۔
لیکن اس کے باوجود سینیٹ اور قومی اسمبلی نے ان کی سیاسی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کی تدفین سے پہلے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ دونوں ایوانوں میں حاصل بزنجو پر بات کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ ان کی سیاسی خدمات کا اعتراف تھا۔
حاصل بزنجو کا تعلق ایک ایسی سیاسی قبیل سے ہے، جو اب پاکستان میں ناپید ہوتی جارہی ہے، خاص کرکے اس وقت جب ریاستِ پاکستان، پوری نسل کی ایک طرح کی ذہن سازی کرنے کے لیے اپنی مرضی کا ایک ہی نصاب ملک پر نافذ کرنا چاہتی ہے، جس میں میر حاصل بزنجو اور ان کی سیاسی قبیل کی فکر کا ذکر کہیں نہیں ہوگا۔
دیگر سیاستدانوں کی نسبت میر حاصل بزنجو نے خودنمائی میں کبھی یقین نہیں رکھا، اور ان کا جن سے بھی تعلق رہا وہ نمائشی کے بجائے ذاتی رہا۔ ان کے قریبی دوست اور اسلام آباد کے سینئر صحافی قربان ستی بتاتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے میر حاصل بزنجو نے انہیں بتایا کہ آنے والے انتخابات میں انہیں ایک بھی نشست نہیں ملے گی۔ قربان ستی بتاتے ہیں کہ ’حاصل بزنجو نے انہیں کہا تھا کہ جو قوتیں بلوچستان کو سنبھالتی ہیں، انہوں نے مجھے کچھ شرائط کے بدلے بلوچستان میں کچھ نشستیں دینے کی پیش کش کی لیکن میرے بس میں نہیں کہ میں انہیں پورا کرسکوں‘۔
پھر ایسا ہی ہوا، انہیں ایک بھی نشست نہیں ملی۔ لیکن ایسا نہیں کہ حاصل بزنجو کا سیاسی سفر تمام ہوا، جتنا جبر بڑھتا جائے گا، بزنجو کے سیاسی نظریے کی ضرورت مزید بڑھتی جائے گی۔
کراچی یونیورسٹی سے فلسفے میں ماسٹر کرنے والے حاصل بزنجو کے یونیورسٹی اور سیاسی سفر کے تب کے ساتھی اور اسلام آباد کے سینئر صحافی سردار شیراز بتاتے ہیں کہ ’حاصل بزنجو نے کبھی بھی اپنے والد کے سیاسی قد کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 80 کی دہائی میں ایک بار اردو کالج میں میر غوث بخش بزنجو ایک جلسے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے حاصل کو کہا کہ چلو بابا جی کی تقریر سن کر آتے ہیں تو حاصل بزنجو نے انکار کردیا‘۔
بدین اسلامیہ کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر عبداللہ ملاح مجھے بتارہے تھے کہ ’جو لوگ 60، 70 اور 80 کی دہائی کو دیکھ یا سن چکے ہیں انہیں اس بات کا ادراک ہوگا کہ میر غوث بخش کس بلند سطح کے سیاسی لیڈر تھے۔ 80 کی دہائی میں سندھ کے معروف سیاستدان اور ہاری رہنما فاضل راہو کی شہادت کے بعد جب تعزیت کے لیے میر غوث بخش بزنجو ضلع بدین کے قصبے راہوکی پہنچے تو انہیں فاضل صاحب کی اوطاق میں بٹھایا گیا۔ دعا کے بعد جب میر صاحب نے دیواروں اور چھت کو دیکھا تو وہ بانس اور مٹی سے بنی ہوئی ہوئی تھی، اور دیواروں پر مٹی کا پلستر تھا، جس پر پیلا رنگ لگا ہوا تھا اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شعر لکھے ہوئے تھے۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے میر غوث بخش نے کہا کہ ‘میری طرح فاضل نے بھی کچھ نہیں بنایا’۔
‘حاصل بزنجو نے بھی آخر دم تک اصولوں کی اس دیوار کو کندھا دیے رکھا، جو ان کے والد نے تعمیر کی تھی‘، عبداللہ ملاح نے اپنی بات میں اضافہ کیا۔
بلوچستان، جس کے مسائل و مصائب کا ذکر پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا میں کہیں نہیں ہوتا، جس کے مارے اور گم ہوجانے والے نوجوانوں کو پاکستان کے میڈیا میں کہیں جگہ نہیں ملتی، اس صوبے کے مکین ہونے کے ناطے ان سیاستدانوں کو اپنے صوبے کے اندر شدید عوامی تنقید اور غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میر حاصل بزنجو جیسے لوگ، جو ناراض بلوچوں کو منانے کا ایک کم امید سہارا تھے، ان جیسوں کی کمی موجودہ خلا کو مزید گہرا کرے گی۔
میر حاصل بزنجو میاں نواز شریف کے آخر دم تک اتحادی رہے، مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت ختم کی تو میر حاصل نے کراچی میں پریس کانفرنس کرکے آمریت کی مذمت کی، پھر وہ بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد میں بھی شامل رہے اور ملک میں آئین کی پاسداری کی ہر تحریک میں انہوں نے کبھی بھی خود کو پیچھے نہیں رکھا۔
31 سال قبل اسی اگست کے مہینے کی 9 تاریخ کو مڈایسٹ ہسپتال میں پارٹی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے میر غوث بخش بزنجو نے وصیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرا جنازہ ہواؤں کے دوش پر نہ لے جایا جائے۔ میری ساری زندگی پابرہنہ اور سربرہنہ لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے گزری ہے اور میری میت بھی انہی راستوں سے گزرنی چاہیے جن پر میرے لوگ چلتے ہیں۔ وہ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہی سہی، ان میں گڑھے اور کٹاؤ بھی ہیں، مگر وہ میری دھرتی پر غاصب حکمرانوں کی ناانصافیوں کے زخم ہیں۔ جب ان پر سے بیمار جھٹکے سہتے ہوئے گزر سکتے ہیں، درد سے نیم جان عورتیں ان سڑکوں پر سفر کرسکتی ہیں تو میرے بے جان بدن کا اس سفر کی مشقت سے کیا بگڑے گا؟ میرا آخری سفر اپنے ناداروں کے ہجوم، ان کے پسینے کی خوشبو، ان کی محبتوں اور بے قراریوں سے محروم کیوں رہے؟ میری میت سب سے پہلے مستی ہاؤس لے جائی جائے اس کے بعد آبائی گاؤں نال لے جائی جائے’۔
2 دن بعد میر غوث بخش بزنجو اس ملک کی سیاست پر اپنا قرض چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ 31 سال بعد اسی کراچی میں ان کے بیٹے بھی پھیپھڑوں کے سرطان کے خلاف آغا خان ہسپتال میں زندگی کی جنگ ہار گئے۔ انہیں بھی نال لے جایا گیا اور اپنے والد کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔
سیاست، جب تک نظریے کا نام تھی، رومانس تھی، طاقتور استحصالی قوتوں سے جلن نہیں نفرت تھی، گھر جلا کر روشنی کا نام تھی، جب سچ بولنا انتہائی کٹھن کام تھا، ایک تقریر پر برسوں جیل میں سڑنا عام سی بات تھی، زندان سیاست کی بنیادی درس گاہ تھی، یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب اپنی فکر کی بنیاد پر جیل چلے جانا قابلِ فخر تھا، ایک ایسے مستقبل کی جدوجہد کے لیے سیاسی کارکن موت کو ہنستے ہنستے گلے لگالیتے تھے، لیکن اب وہ سب کچھ تمام ہوچکا۔
اب سیاست نظریے کے بجائے مادیت پرستی اور موقع پرستی میں تبدیل ہوگئی ہے، بیانات اور تقاریر میں فرق ہے، لیکن حکومتی پالیسیاں ایک جیسی ہیں، سیاست کو کرپشن کی لت لگ گئی ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، لیکن اب مقتدروں کی مرضی نہ ماننے والے سیاستدان سیاسی فکر کے بجائے کرپشن کی کالک کے الزام میں جیل بھیجے جاتے ہیں۔
سیاست کے اس ہجوم میں حاصل بزنجو نے کمال کاریگری سے خود کو نہ صرف اس کالک سے بچایا، بلکہ اپنے ساتھ اپنے والد کو بھی سرخرو کیا۔ اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ خصوصاً ان حالات میں جب آپ اچھے اصولوں کی پاسداری کریں تو لوگ آپ سے فرشتہ ہونے کی توقع کرتے ہیں لیکن خود شیطانیت سے باز بالکل نہیں آتے۔
حاصل بزنجو ایک عرصے تک پاکستان کی سیاست میں اعلیٰ اصولوں کی علامت بنے رہیں گے، اگر وہ سینیٹ کے فنڈز سے بیرون ملک علاج کروانے چلے جاتے تو شاید چند سال مزید جی لیتے، لیکن انہوں نے ملامتی زندگی پر اپنی موت کو ترجیح دی اور یہی ایک ادا ہے جو آپ کے گناہ بخش دیتی ہے اور سیاست کی جنت میں لے جاتی ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں