• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

لیبیا کی حکومت نے ملک بھر میں فوری جنگ بندی کا اعلان کردیا

شائع August 21, 2020 اپ ڈیٹ August 22, 2020
لیبیا کی حکومت نے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا بھی اعلان کردیا—فوٹو:اے ایف پی
لیبیا کی حکومت نے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا بھی اعلان کردیا—فوٹو:اے ایف پی

لیبیا میں اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ حکومت (جی این اے) نے ملک بھر میں فوری جنگ بندی کے ساتھ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا اعلان کردیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق لیبیا کی حکومت نے سرت شہر سے بھی فوج ہٹانے کی بات کی ہے جس کے بعد 9 سال خانہ جنگی کے شکار ملک میں امن کی بحالی کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔

جی این اے کی جانب سے مارچ میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا بھی اعلان کردیا گیا ہے اور تیل کی دولت سے بھرپور ملک نے تیل کی برآمد میں حائل رکاوٹوں کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:لیبیا کی حکومت سے ترک، قطری، جرمن وزرا کے مذاکرات

رپورٹ کے مطابق جی این اے کے سربراہ فیاض السراج نے تمام سیکیورٹی فورسز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور ملک بھر میں جاری کارروائیوں کو ختم کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس اعلان کا مقصد لیبیا کی حدود میں مکمل خود مختاری اور بیرونی فورسز کی بے دخلی کویقینی بنانا ہے۔

جی این اے کے اعلان کے بعد مشرقی فورسز کے کمانڈر خلیفہ حفتر کی فورسز کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم انہوں نے جون میں مصر کی ثالثی پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

کمانڈر حفتر کے حامی لیبیا کی پارلیمنٹ کے اسپیکر اغوئیلا صالح نے دونوں فریقین کو اس اعلان پر عمل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی سے بیرونی فورسز کو لیبیا میں مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے اسٹریٹجک شہر سرت کو خطے کے مختلف فورسز سے تحفظ ملے گا۔

دوسری جانب مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے اپنے بیان میں لیبیا میں جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔

خیال رہے کہ لیبیا میں مصر کمانڈر حفتر کی حمایت میں موجود ہے اور ان کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور روس بھی شامل ہے۔

دوسری جانب حکومت کو ساتھ ترکی اور قطر کی حمایت حاصل ہے اور ترک فورسز بھی موجود ہیں، جن کی بدولت بڑی کامیابیاں بھی ملی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں مصر کی کارروائیاں 'غیر قانونی' ہیں، رجب طیب اردوان

قبل ازیں جرمنی، ترکی اور قطر کے وزرائے دفاع نے ملاقاتیں کی تھی جس کے بعد جرمنی کے وزیر خارجہ نے دو روز قبل لیبیا کے حکام سے ملاقات کی اور سیکیورٹی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ترک وزیر دفاع ہلوسی آکار نے کہا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنے لیبیا کے بھائیوں کی ان کے مقصد کے لیے مدد کرکے اپنی توقعات کے مطابق نتائج حاصل کریں گے'۔

جرمن وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ 'لیبیا میں اس وقت امن کو ہم فریب کے طور پر دیکھ رہے ہیں، دونوں فریقین اور ان کے عالمی اتحادیوں کی جانب سے اسلحے کی بڑے پیمانے پر فراہمی ہو رہی ہے'۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں فریقین براہ راست مذاکرات شروع کریں اور خانہ جنگی کو ختم کریں۔

ہیکو ماس نے مطالبہ کیا تھا کہ تیل کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو بھی ہٹادیا جائے اور جنگ زدہ ملک میں تیل کی دولت کو مساوی تقسیم کیا جائے۔

لیبیا کے وزیر خارجہ محمد طاہر سیالا کا کہنا تھا کہ انہیں تنازع کے حل کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت نہیں ہے لیکن جمہوی انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے آئین کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے خلاف 2011 میں نیٹو اتحاد کی حمایت سے کارروائی شروع کی گئی تھی اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا جس کے بعد ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: لیبیا سے دور رہیں یا ہماری گولیوں کا سامنا کریں، لیبین کمانڈر کی ترک صدر کو وارننگ

لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔

معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔

جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024