کووڈ 19 کے جسم میں داخلے کا اہم مقام دریافت کرلیا گیا
سائنسدانوں نے جسم کے اس مقام کی شناخت کرلی ہے جو ممکنہ طور پر سب سے پہلے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا مرکز بنتا ہے۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس کی جانب سے ناک کے خلیات کو ہدف بناکر جسم کو متاثر کیا جاتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
جان ہوپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں انسانی خلیات کے نمونوں پر تجربات کے بعد دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کی جانب سے ناک میں سونگھنے یی حس میں معاونت کرنے والے خلیات کو متاثر کیا جاتا ہے جو ناک کے اوپری حصے کے اندر ہونے کے ساتھ پھیپھڑوں کی نالی تک موجود ہوتے ہیں۔
یہ معاون خلیات بو محسوس کرنے والے خلیات کے افعال اور بننے کے عمل کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
یہ نتائج ناک کے خلیات پر ابتدائی تحقیق کا حصہ ہیں اور اس سے کووڈ 19 کے علاج کے لیے ادویات کے لیے بہترین ہدف کی تلاش کے کام کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے گی، جبکہ اس یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ اس وائرس کے شکار اکثر افراد سونگھنے کی حس سے کیوں محروم ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کا خلاصہ ایک خط کی شکل میں جریدے یورپین ریسیپٹری جرنل میں شائع ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں سونگھنے کی حس سے محروم ہونے والے افراد میں اکثر ناک کے دیگر مسائل نظر نہیں آتیں، اور ہماری تحقیق سے یہ تعین کرنے میں مدد ملے گی کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے، جبکہ ممکنہ طور پر بہترین علاج کی دریافت کا موقع بھی مل سکتا ہے۔
سائنسدان یہ پہلے سے جانتے ہیں ککہ کورونا وائرس متعدد اقسام کے انسانی خلیات کو ایک ایس 2 نامی ریسیپٹر کی مدد سے جکڑ لیتا ہے۔
اس تعلق کو زیادہ گہرائی سے جاننے کے لیے محققین نےے نتھوں کے ٹشوز میں ایس 2 کی سطح کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔
یہ ٹشوز 19 مردوں اور خواتین سے اکٹھے کیے گئے تھے اور انہوں نے دریافت کیا کہ نتھنوں کے خلیات میں ایس 2 کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
یہ خلیات اس جگہ پر ہوتے ہیں جہاں بو سونگھنے میں مدد دینے والے نیورونز موجود ہوتے ہیں اور محققین کا کہنا تھا کہ ناک کا یہ حصہ بیماری کے حوالے سے خاص طور پر کمزور ہوسکتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ واحد متاثرہ حصہ ہوسکتا ہے، چاہے کوئی علامات ظاہر نہ بھی ہو۔
اس کو دیکھتے ہوئے محققین کی جانب سے لوگوں پر زور دیا گیا کہ وہ فیس ماسک کا استعمال لازمی کریں اور درست طریقے سے پہنیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایس 2 ناک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں اس مقام پر سب سے زیادہ ہوتے ہیں، چونکہ ایس 2 کی بہت زیادہ مقدار سونگھنے کی حس سے جڑی ہوتی ہے تو اسی وجہ سے کووڈ 19 کے شکار کچھ افراد کو سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے۔
اس سے قبل اپریل میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناک میں موجود 2 اقسام کے خلیات گوبلیٹ اور سیلیاٹیڈ میں کووڈ 19 کے انٹری پروٹینز کی بہت زیادہ مقدار ہائی جاتی ہے اور یہ پروٹینز اس وائرس کو دیگر خلیات میں داخل ہونے کا موقع دیتے ہیں۔
یہ دریافت برطانیہ کے ویلکم سانگر انسٹیٹوٹ، نیندرلینڈ کے یونیورسٹی میڈیکل سینٹر گرونینجین، فرانس کی کوٹ ڈی ازور یونیورسٹی، سی این آر ایس، نائس اور دیگر نے کی، جس سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ یہ بیماری اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ آنکھوں اور چند دیگر اعضا کے خلیات بھی وائرس کے انٹری پروٹین کا مرکز بنتے ہیں جبکہ محققین نے بتایا کہ کس طرح ایک انٹری پروٹین کو ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے اور علاج کے لیے ممکنہ اہداف کا ذکر بھی کیا گیا۔
نیا نوول کورونا وائرس پھیپھڑوں اور سانس کی گزرگاہ کو متاثر کرتا ہے اور مریضوں میں فلو جیسی علامات جیسے بخار، کھانسی اور گلے کی سوجن نظر آتی ہے، جبکہ متعدد افراد ایسے ہوتے ہیں، جن میں علامات نظر نہیں آتیں مگر پھر بھی وائرس کو آگے منتقل کردیتے ہیں۔
بدترین کیسز میں نمونیا کی شکایت ہوتی ہے جو موت کا باعث بن جاتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا 'ہم نے دریافت کیا کہ ریسیپٹر پروٹین ایس 2 اور ٹی ایم پی آر ایس ایس 2 سارس کوو 2 کے انٹری پروٹین کو متحرک کرکے مختلف اعضا کے خلیات تک پہنچااتے ہیں، جن میں ناک کے اندرونی حصے کے خلیات بھی شامل ہیں۔
جب محققین نے مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ بلغم بنانے والے گوبلیٹ اور سیلیاٹیڈ خلیات میں کووڈ 19 وائرس کے پروٹینز کی سب سے زیادہ مقدار پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ممکنہ طور یہ خلیات وائرس کے لیے ابتدائی انفیکشن روٹ ثابت ہوتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے جب معلوم ہوا کہ ناک کے یہ مخصوص خلیات کووڈ 19 سے منسلک ہیں اور وائرس کی منتقلی میں متعدد عناصر کردار ادا کرتے ہیں، مگر ہماری دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان خلیات کا مقام بہت تیزی سے وائرس کو پھیلنے میں مدد دیتا ہے۔
وائرس کے 2 انٹری پروٹیشنز ایس 2 اور ٹی ایم پی آر ایس ایس 2 کو آنکھوں کے قرینے کے خلیات اور آننتوں کے خلیات میں بھی دریافت کیا گیا جو کہ آنکھوں اور آنسوؤں کی نالی سے بھی وائرس کے ایک اور ممکنہ روٹ کا عندیہ دیتے ہیں۔
جب خلیات کو انفیکشن سے نقصان پہنچتا ہے تو متعدد مدافعتی جینز متحرک ہوجاتے ہیں اور اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناک کے خلیات میں ایس 2 ریسیپٹر کی پروڈکشن اس وقت جگہ بدلل لیتی ہے جب مدافعتی جینز حرکت میں آتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس معلومات کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو سمجھنے میں مدد دے سکے گی اور یہ معلوم ہونا بہت اہم ہے کہ کونسی قسم کے خلیات وائرس کی منتقلی میں کردار ادا کرتے ہیں، جس سے ممکنہ طریقہ علاج کو تشکیل دیکر اس کے پھیلنے کی رفتار میں کمی لانا ممکن ہوسکے گی۔