• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عمران خان کی حکومت آنے والی نسلوں کیلئے بھی غیرسنجیدہ دکھائی دیتی ہے، مرتضیٰ وہاب

شائع August 19, 2020
سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ فوٹو:ڈان نیوز
سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ فوٹو:ڈان نیوز

سندھ حکومت کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے وفاقی حکومت کی 2 سالہ کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت آنے والی نسل کے حوالے سے بھی غیر سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں جب یہ حکومت بنی تھی تو اس وقت ملک بھر سے صرف 12 پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے تاہم اس کے اگلے ہی سال اس میں ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 2019 میں تحریک انصاف کی گورننس کے دوران ملک بھر سے 147 نئے کیسز سامنے آئے اور 2020 کے 8 ماہ میں ہی اب تک ملک بھر سے 65 نئے کیسز سامنے آچکے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ وفاقی حکومت آنے والی نسلوں کے حوالے سے بھی غیر سنجیدہ ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ 'اس حکومت کے منظور نظر مافیا کا ان دو سالوں میں بہت فائدہ ہوا ہے'۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کی کرپشن کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے، مرتضیٰ وہاب

انہوں نے اشیائے ضروریات کی قیمتوں کا دو سال قبل کی قیمت سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان کی اوسط قیمت کے حساب سے اگست 2018 میں 20 کلو آٹے کی بوری 778 روپے کی تھی اور آج وہ ایک ہزار 10 روپے کی ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگست 2018 چینی میں 55 روپے، مرغی 114 روپے کلو، کھانے پکانے کا تیل 941 روپے کا پیکٹ، دال 112 روپے کلو بھی جو اگست 2020 میں بالترتیب 102 روپے، 194 روپے، ایک ہزار 69 روپے، 237 روپے ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ چاہتے ہیں کہ غریب بس سانس لے لے یہ کافی ہے'۔

گردشی قرضوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے اگست 2018 میں گردشی قرضے 10 کھرب 40 ارب روپے تھے اور آج یہ حکومت اسے 22 کھرب روپے تک لے گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'قرضوں کی بات کریں تو وزیر اعظم کہتے تھے کہ خود کشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، انہیں بتانا چاہوں گا کہ اگست 2018 میں پاکستان کا کل قرضہ 242 کھرب روپے تھا اور آج یہ 344 کھرب روپے ہوگیا ہے'۔

کراچی کی ترقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم نے کراچی کے دورے کے دوران شہر کے لیے 162 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا وعدہ کیا تھا جسے وہ آج تک وفا نہیں کرسکے ہیں اور کہتے ہیں کہ کراچی کے حقوق کی جنگ لڑیں گے، جس پر کوئی بات نہیں کرتا'۔

جی ڈی پی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 2018 میں ملک کی جی ڈی پی کی نمو 5.5 فیصد تھی، آج وہ کم ہوکر منفی 0.38 فیصد پر آگئی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ فی کس آمدنی اگست 2018 میں ایک ہزار 652 ڈالر تھی، اور اگست 2020 میں یہ گر کر 355 ڈالر پر آگئی ہے جبکہ ان کا وعدہ تھا کہ یہ عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لے کر آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ملک کا مالی خسارہ اگست 2018 میں 6.6 فیصد تھا جو آج بڑھ کر 8.1 فیصد ہوگیا ہے، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری 2 ارب 78 کروڑ ڈالر تھی جو کم ہوکر اب 2 ارب 50 لاکھ ڈالر پر آگئی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اطلات نے کہا کہ ان تمام چیزوں کا مجموعہ دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طریقے سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مختلف اداروں کے جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی شرح 13 سے 14 فیصد بتائی جاتی ہے'۔

مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ 'کرنسی کی قدر کو انہوں نے گرایا اور کہا تھا کہ اس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوگا میں چیلنج کرتا ہوں کہ مجھے بتائیں کہ پاکستان کی برآمدات میں کیا کوئی اضافہ ہوا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2018 میں پاکستان نے 38 کھرب 40 ارب روپے ریونیو اکٹھا کیا تھا جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس حکومت کے دور میں 2019 میں ریونیو کم ہوکر 32 کھرب رہا اور مالی سال 2020 کے لیے بجٹ دستاویزات میں انہوں نے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف 55 کھرب روپے رکھا تھا جس میں سے انہوں نے صرف 39 کھرب 60 ارب روپے جمع کیا۔

اعداد و شمار بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہے اس حکومت کی کارکردگی، اس کی گڈ گورننس'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت اسٹاک ایکسچینج کی بہتر کارکردگی کا دعویٰ کرتی ہے، میں بتانا چاہوں گا کہ جب یہ حکومت میں آئی تھی تو مارکیٹ 42 ہزار پوائنٹس پر تھی اور یہ اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے 28 ہزار پوائنٹس تک لے گئے تھے اور جب آج واپس 40 ہزار پر آئی ہے تو کہتے ہیں کہ مارکیٹ بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے، انہیں چاہیے تھا اسے وہیں سے بڑھا کر 50 ہزار پر لے جاتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہر چیز کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر نہیں ڈال سکتے، اقتدار ان کے پاس ہے، نیک نیت ہیں، ایماندار ہیں، فرشتے ہیں مگر کارکردگی ان کی صفر ہے'۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 'عمران خان حکومت میں آنے سے قبل ایک کروڑ نوکریوں کی بات کرتے تھے مگر ان کے حکومت میں آنے کے بعد سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور اگر کسی کو نوکری ملی ہے تو وہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی و مشیر ہیں، 50 لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس سلسلے میں بھی ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جب مافیاز حکومت چلاتی ہیں تو چینی، پیٹرول، آٹا نایاب ہوتا ہے، مرتضیٰ وہاب

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس کو ختم کرکے یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر آج تک یہ یونیورسٹی نظر نہیں آئی، گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر یہاں صرف غریبوں کی دیواریں گرائی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وعدہ کیا گیا تھا کہ چھوٹی کابینہ ہوگی مگر اب جب کابینہ کی تصویر دیکھتے ہیں تو وزیر اعظم بھی چھوٹے سے نظر آتے ہیں، اس حکومت نے جو وعدے کیے وہ وفا نہیں کیے، عوام کا استحصال کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'کرپشن کی روک تھام کا ہدف طے کیا گیا تھا، میں سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان میں کرپشن میں کمی آگئی ہے، اگر آئی ہوتی تو چینی، ادویات، پیٹرولیم اسکینڈلز سامنے نہیں آتے'۔

اسد عمر کے گزشتہ روز کے عمران خان کے کریس پر جمنے کے حوالے سے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اسد عمر نے اعتراف کیا ہے دو سال تک یہ عوام کا تیل نکالتے رہے تاکہ کپتان اپنی نیٹ پریکٹس کرسکیں'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024