کیا کووڈ 19 سے لوگ کئی بار بیمار ہوسکتے ہیں؟ ممکنہ جواب سامنے آگیا
مدافعتی نظام تمام جراثیموں کو یکساں طور پر یاد نہیں رکھتا مگر ہمارے جسمانی خلیات بظاہر کورورنا وائرس کو بہت سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے مدافعتی ردعمل کی مانیٹرنگ کرنے والے سائنسدانوں نے اب مضبوط اور دیرپا مدافعت یا امیونٹی کے حوصلہ بخش آثار کو دیکھا شروع کیا ہے، چاہے لوگوں کو کووڈ 19 کی معتدل شدت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔
متعدد نئی تحقیقی رپورٹس میں یہ عندیہ سامنے آیا ہے کہ بیماری کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز بشمول مدافعتی خلیات بی سیلز اور ٹی سیلز اس وائرس کو شناخت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ بیماری سے صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی یہ تسلسل برقرار رہتا ہے۔
ایریزونا یونیورسٹی کی اس حوالے سے حالیہ تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ جسمانی نظام اسی طرح کام کرتا ہے جیسا تصور کیا جاتا ہے۔
اگرچہ سائنسدان یہ پیشگوئی کرنے کے قابل تو نہیں ہوئے کہ یہ مدافعتی ردعمل کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے، مگر متعدد ماہرین نے ڈیٹا کو خوش آئند اشارہ قرار دیا ہے کہ جسمانی خلیات اپنا کام بخوبی طریقے سے کرتے ہیں اور ایسا قوی امکان ہے کہ دوبارہ اس مرض کا سامنا ہونے پر وہ بہت تیزی سے کورونا وائرسز پر قابو پانے میں مدد دے سکتتے ہیں۔
ایک اور تحقیق میں شامل واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر ماریون پیپر کا کہنا تھا 'یہ بالکل ویسا ہیے جس کی آپ توقع کرتے ہیں، ایسے تمام اشارے موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہمیں مکمل حفاظتی ردعمل حاصل ہوتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے دوبارہ شکار ہونے سے تحفظ کی اب تک مکمل تصدیق تو نہیں ہوسکی مگر ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ بیشتر افراد جن کا وائرس سے دوسری بار سامنا ہوتا ہے، وہ اسے خود سے دور رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے ان خدشات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وائرس مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور لوگوں کو بار بار بیمار کرسکتا ہے۔
محققین ابھی تک ایسے ٹھوس شواہد دریافت نہیں کرسکے کہ کورونا وائرس کسی فرد کو 2 یا اس سے زیادہ بار بیمار کرسکتا ہے خصوصاً ایک بار اس کے شکار ہونے اور صحتیاب ہونے کے چند ماہ کے اندر ایسا ہوجائے۔
ڈاکٹر ماریون نے بتایا کہ مدافعتی یادداشت سے ممکنہ طور پر اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے مدافعتی ردعمل پر جو بحث ہورہی ہے ان میں زیادہ زور اینٹی باڈیز یا ایسے پروٹینز پر دیا جارہا ہے جو جراثیموں کو خلیات کو متاثر ہونے سے روکتے ہیں۔
مگر اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کے پیچیدہ اور منظم دفاع کے ایک پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر کئی جراثیم اینٹی باڈیز سے بچ جاتے ہیں مگر قاتل ٹی سیلز کے سامنے کمزور ہوجاتے ہیں جو متاثرہ خلیات کو خود تباہ ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔
ٹی سیلز کی ایک اور قسم بی سیلز کے ساتھ اینٹی باڈی بننے کے میکنزم کے طور پر کام کرتی ہے۔
اینٹی باڈیز کی ایک مدت ہوتی ہے کیونکہ وہ زندہ خلیات نہیں بلکہ پروٹینز ہوتے ہیں جو خود کو دوبارہ بنانہیں سکتے تو کئی ہفتوں یا مہینوں بعد خون سے تحلیل ہونے لگتے ہیں۔
ابتدائی اینٹی باڈیز بنانے والے بیشتر بی سیلز بھی خطرہ ختم ہونے کے بعد مرجاتے ہیں۔
مگر اس وقت جب کسی وائرس کا حملہ نہیں ہوتا، تب بھی جسم زیادہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے والے بی سیلز کی صفوں کو برقرار رکھتا ہے تاکہ وہ مستقبل میں وائرس کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز تیار کرسکیں۔
ان میں سے کچھ بی سیلز دوران خون میں ہوتے ہیں، دیگر بون میرو میں چلے جاتے ہیں اور کچھ مقدار میں اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو بیماری ختم ہونے کے کئی برس بعض اوقات کئی دہائیوں تک فعال رہتی ہیں۔
متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں اب دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے ووالے افراد کے خون میں کئی ماہ بعد بھی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کچھ مقدار میں موجود رہتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اینٹی باڈیز گھٹ جاتی ہیں مگر مستحکم شکل اختیار کرلیتی ہیں جو علامات کے آغاز کے 3 ماہ بعد بھی دیکھی جاسکتی ہیں، یہ ردعمل بظاہر دیرپا نظر آتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ بیماری کے کئی ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کا نظر آنا اس بات کا مضبوط عندیہ دیتا ہے کہ بی سیلز بون میرو میں موجود ہیں۔
ڈاکٹر ماریون اور ان کی ٹیم نے کووڈ کے معتدل شدت والے مریضوں کے خون سے ایسے بی سیلز کو ڈھونڈنے میں کامیابی حاصل کی جو کورونا وائرس کو شناخت کرسکتے تھے اور لیبارٹری میں ان کی افزائش کی۔
متعدد تحقیقی رپورٹس بشمول گزشتہ ہفتے جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق میں کورونا وائرس پر حملہ کرنے والے ٹی سیلز کو صحتیاب افراد کے خون سے الگ کیا گیا اور یہ ایسے افراد تھے جو کافی عرصے پہلے کووڈ 19 سے صحتیاب ہوچکے تھے۔
جب ان ٹی سیلز کا سامنا لیبارٹری میں کورونا وائرس سے کرایا گیا تو ان کی جانب سے وائرس سے لڑنے والے سگنلز بھیجے گئے اور انہوں نے اپنی نقول بناکر تازہ دم فوج تیار کی تاکہ جانے پہچانے دشمن سے لڑ سکیں۔
رپورٹس میں کہا گیا کہ ٹی سیلز کے تجزیے سے کورونا وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کی جھلک نظر آتی ہے یہاں تک کہ ایسے مریض جن میں اینٹی باڈیزک ی سطح اتنی گھٹ جاتی ہے کہ شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ بیشتر نئی تحقیقی رپورٹس میں یہ طاقتور ردعمل ایسے افراد میں دریافت کیا گیا جو کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار نہیں ہوئے تھے۔
تاہم کووڈ 19 سے کم متاثر ہونے والے افراد کے نتائج کا موازنہ ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں سے کرنا فی الحال درست نہیں، جن کے جسموں کو وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کو متوازن رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوا یا ایسے افراد سے بھی موازنہ نہیں کی جاسکتا جن میں کسی قسم کی علامات نظر نہیں آتیں۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر جیسن نیٹ لینڈ کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں تحقیقی گروپس کی جانب سے ہر طرح کے ردعمل پر کام کیا جارہا ہے مگر ایسے کیسز کی اکثریت معتدل حد تک بیمار ہونے والوں کی ہے، اگر ان افراد کو تحفظ ملتا ہے تو یہ بھی اچھی خبر ہے۔
اگرچہ وائرس سے دوبارہ متاثر نہ ہونے کی مکمل تصدیق تو ابھی نہیں کی جاسکتی مگر حالیہ رپورٹس اور نئے ڈیٹا سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کووڈ 19 کے شکار افراد میں اس وائرس کے خلاف مدافعت بنتی ہے اور وہ بھی مضبوط مدافعت ہوتی ہے۔
کچھ بیماریوں جیسے فلو متعدد افراد کو بار بار شکار کرتے ہیں مگر اس کی ایک جزوی وجہ انفلوائنزا وائرسز میں مسلسل تبدیلیاں آنا ہے جو مدافعتی نظام کے ان جراثیموں کی فوری شناخت کو مشکل بناتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں کورونا وائرسز اپنی ساخت کو بہت کم رفتار سے بدلتے ہیں۔
مگر محققین نے انتباہ کیا ہے کہ ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں، اگرچہ تحقیقی رپورٹس سے ممکنہ تحفظ کا عندیہ ملتا ہے مگر اس کو آزمانا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
مشی گن یونیورسٹی کے ماہر چیونگ ہی چانگ کا کہنا تھا کہ یہ پیشگوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں کیا ہوسکتا ہے، انسانوں میں بہت کچھ بدلتا ہے اور ابھی متعدد عناصر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر ماریون کا کہنا تھا کہ طویل المعیاد انسانی ردعمل کی ٹریکنگ کے لیے وقت درکار ہوگا، اچھی مدافعتی یادداشت کے لیے درکار تمام عناصر کے بارے میں سائنسدان ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ لوگوں کے جسم کورونا کے بعد کی حالت میں خود کو ڈھال رہے ہیں اور ہمیں مدافعت کے حوالے سے طویل جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ چند ماہ یا برسوں بعد بدل جائیں یا ہوسکتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی شارٹ کٹ نہیں، ہمیں بس لوگوں کی مانیترنگ کرنا ہوگی۔