انسداد دہشت گردی ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور
اسلام آباد: سینیٹ میں مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے اراکین کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ’بین الاقوامی دباؤ پر جلد بازی میں قانون سازی کرنے‘ پر احتجاج اور ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کو ان اہم قانون سازیوں میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا یا گیا۔
چانچہ سینیٹ اجلاس میں پیر کے روز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق 5 میں سے ایک بل ہی منظور ہوسکا۔
جعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کے شدید احتجاج اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی درخواست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور انسداد منشیات کو پرائیویٹ اراکین کے دن پر ضمنی ایجنڈے کے ذریعے ان بلز پر رپورٹ پیش کرنے کی اجازت دیتے ہوئے بلز کی منظوری منگل (آج) تک ملتوی کردی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کے شور شرابے کے دوران انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 منظور کیا جبکہ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری ٹرسٹ بل اور نشہ آور اشیا کی روک تھام (ترمیمی بل) کی منظوری روک دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق 6 بلز پر حکومت، اپوزیشن میں اتفاق
علاوہ ازیں 2 دیگر بلز لمیٹڈ لائبلیٹیز پارٹنرشپ (ترمیمی) بل 2020 اور کمپنیز (ترمیمی) بل 2020 ایوان بالا میں پیش نہیں کیا جاسکا کیوں کہ کمیٹی برائے خزانہ نے انہیں اجلاس میں سیکریٹری خزانہ کی عدم موجودگی پر منظور نہیں کیا تھا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ایک جانب حکومت ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون منظور کروانے کی جلدی میں ہے اور دوسری جانب سیکریٹری خزانہ کے پاس اس قانون سازی سے متعلق کمیٹی اجلاس میں شرکت کا وقت نہیں۔
فاروق ایچ نائیک جو کمیٹی برائے داخلہ کے رکن بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی بل اور منشیات کی روک تھام کے بل کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تجاویز دی تھیں اور وزیر انسداد منشیات اعظم سواتی نے تحریری ضمانت دی تھی کہ ترامیم قانون کی منظوری کے 30 روز بعد اس کا حصہ بن جائیں گی۔
واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر پورا اترنے کے لیے حکومت کی جانب سے ایوان میں پیش کردہ پانچوں بلز قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایجنڈے پر ہونے کے باوجود ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز ایوان میں پیش نہ کیے جاسکے
تاہم جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ وہ بند آنکھوں سے ان قوانین کی تائید نہیں کرسکتے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کی جماعت سے قانون سازی کے لیے کسی سطح پر بھی مشاورت نہیں کی گئی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی خوش قسمت ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) بھی انہیں جلد بازی میں بل منظور کروانے کے لیے تعاون فراہم کررہی ہیں۔
دوسری جانب پی کے میپ کے عثمان کاکڑ نے چیئرمین سینیٹ اور حکومت سے بل مؤخر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آج بل منظور کروانے کے لیے اس لیے اصرار کررہی ہے کہ وہ جانتی ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہمیشہ اس کی حمایت کے لیے موجود ہوں گی۔
دوسری جانب جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا عطااللہ رحمٰن نے حکومت کو ’جلد بازی میں قانون سازی‘ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارلیمان کو بلڈوز کرنے کا الزام عائد کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ سے انسدادِ منی لانڈرنگ سمیت دو بل منظور
علاوہ ازیں سینیٹ اجلاس میں کسی بھی قانون سازی کو ایوان میں پیش کیے جانے سے قبل اپوزیشن نے احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری، ان کے وکلا اور پارٹی ورکر کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی پر پی پی پی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن کی سربراہی میں ٹوکن واک آؤٹ کیا۔
تاہم سینیٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے شیری رحمٰن کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو احتساب کا عمل جاری رہے گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن نیب قوانین میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے تو حکومت ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔