اسرائیلی صدر نے ابوظہبی کے ولی عہد کو یروشلم دورے کی دعوت دے دی
اسرائیل کے صدر نے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید کو بیت المقدس (یروشلم) کا دورہ کرنے کی دعوت دے دی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اسرائیلی صدر نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کے حصول میں ولی عہد کے کردار کی تعریف کی۔
مزید پڑھیں: اسرائیل سے معاہدے کا مقصد ایران کو نشانہ بنانا نہیں، اماراتی وزیر خارجہ
اسرائیلی صدر ریون ریولن نے ولی عہد شیخ محمد زاید کو لکھے گئے مراسلے میں کہا کہ ’فیصلہ کن دنوں میں قائدانہ صلاحیت کا اندازہ آگے قدم بڑھانے کے لیے حوصلے اور صلاحیت اور دور اندیشی سے ہوتا ہے۔'
ریون ریولن نے کہا کہ ’مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آنے والی نسلیں آپ جیسے بہادر، عقلمند رہنماؤں کے امن و اعتماد پر مبنی، لوگوں اور مذاہب کے مابین مکالمہ، تعاون اور ایک امید افزا مستقبل سے متعلق فیصلے پر تعریف کریں گی‘۔
اسرائیلی صدر نے خط میں کہا کہ 'اسرائیل کے عوام اور (ذاتی طور پر) میں آپ کو اسرائیل اور یروشلم کا دورہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور ہمارے معزز مہمان بن کر عزت افزائی کا موقع دیں۔'
ریون ریولن نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ یہ قدم ہمارے اور خطے کے لوگوں کے مابین اعتماد کو مضبوط بنانے اور اس کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا اور یہ اعتماد ہم سب کے مابین تفہیم کو فروغ دے گا‘۔
اسرائیلی صدر نے ابوظہبی کے ولی عہد کو لکھے گئے خط میں مزید کہا کہ 'یہ اعتماد، جس کا اظہار نیک اور جرات مندانہ عمل کے ذریعے کیا گیا، ہمارے خطے کو آگے بڑھائے گا، معاشی ترگی لائے گا اور مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ کے عوام کو خوشحالی اور استحکام فراہم کرے گا۔'
خیال رہے کہ چند روز قبل متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان 'امن معاہدہ' ہوا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے۔
معاہدے کے مطابق اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کے یکطرفہ الحاق کے اپنے منصوے کو مؤخر کردے گا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل-امارات امن معاہدہ: حسن روحانی کی تنقید پر ابوظہبی میں ایرانی ناظم الامور کی طلبی
اس معاہدے کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
اس حوالے سے اسرائیل کے وزیر انٹیلی جنس نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے بعد بحرین اور عمان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو باضابطہ شکل دینے کے لیے اگلے خلیجی ممالک ہو سکتے ہیں۔
بعدازاں متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کا معاہدہ ایک 'خود مختار فیصلہ' تھا اور اس کا ایران سے کوئی لینا دینا نہیں۔
ایران اور ترکی نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یو اے ای کے بعد بحرین اور عمان بھی سفارتی تعلقات استوار کرسکتے ہیں، اسرائیل
ایران کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کو 'خنجر' قرار دیا تھا جسے متحدہ عرب امارات نے فلسطینی عوام اور تمام مسلمانوں کی پیٹھ میں ناجائز طور پر گھونپا ہے، ترکی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے خطے کے عوام اس منافقانہ سلوک کو کبھی نہیں فراموش کریں گے اور کبھی معاف نہیں کریں گے۔
دوسری جانب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی تھنک ٹینک کے منصوبے 'عرب ۔ اسرائیل تعلقات' کے ڈائریکٹر ڈیوڈ میکوسکی نے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ 'یہ معاہدہ امارات کی جیت ہے، جو بلاشبہ اب ان ہتھیاروں کی خریداری کا اہل ہوجائے گا جو پہلے وہ 'معیاری ملٹری ایج' کی پابندیوں کے باعث حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت سے روکنے کی کوشش کی تھی، تاکہ ان پر انسانی حقوق کے تحفظ کا ریکارڈ بہتر بنانے اور یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں میں شہریوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔
مزید پڑھیں: بی جے پی رہنما پر مسلمان لڑکیوں کا مذہب تبدیل کر کے ہندو لڑکوں سے شادیاں کروانے کا الزام
امریکی حکومت کے واچ ڈاگ سے جاری حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ محکمہ خارجہ نے 2019 میں سعودی عرب اور یو اے ای کو ہتھیاروں کی فروخت سے قبل یمن میں شہریوں کے جانی نقصان کا مکمل طور پر جائزہ نہیں لیا تھا۔