سعودی سفیر کی وزیراعلیٰ پنجاب، مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے ملاقاتیں
لاہور: سعودی عرب کے سفری نواف بن سعید احمد المالکی نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں اور کچھ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی سفیر کی ملاقاتوں کو ان کے ملک کے لیے حمایت متحرک کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
پاکستان علما کونسل کے رہنما حافظ طاہر اشرفی گزشتہ ہفتے دونوں ممالک کے تعلقات پر بات چیت کے لیے سعوی عرب گئے تھے۔
مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے چند روز قبل ایک ٹاک شو کے دوران برادر ملک کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی استعمال کردہ ’زبان‘ پر مایوسی کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نئی آزاد خارجہ پالیسی اور پاک سعودی بھائی چارہ، امکانات کیا ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیر خارجہ کے بیان پر تنقید کی تھی۔
سعودی عرب نے مبینہ طور پر 2018 میں پاکستان کو دیے گئے 3 ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کا مطالبہ کی تھا جس کا ایک تہائی حصہ ادا کیا جاچکا ہے جبکہ بقیہ رقم کی ادائیگی کے لیے بات چیت جاری ہے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور سعودی سفیر کی ملاقات کے بعد جاری کردہ ایک بیان کے مطابق دونوں نے پاک سعودی تعلقات اور باہمی تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات میں وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پاکستان کی سعودی عرب کے ساتھ طویل المدتی روحانی وابستگی ہے اور دونوں ممالک کے عوام بھائی چارے کے رشتے میں بندھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت کی جانب سے پاکستان کی ترقی کے لیے فراہم کردہ تعاون قابل تعریف ہے۔
بیان کے مطابق عثمان بزدار نے کہا کہ راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے یہ شہر کی آب و ہوا کو صارف رکھنے کے لیے ایک نیا لاہور بنانے کا منصوبہ ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا اور سعودی سرمایہ کاری بھی اس منصوبے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر کی تیسری قسط موصول
ملاقات میں سعودی سفیر نے سماجی شعبے کی ترقی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا اور راوی منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی۔
دوسری جانب مسلم لیگ(ق) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ملاقات میں سفیر نے کہا کہ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حج کے دوران اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عمل یقینی بنایا گیا اور انہیں اقدامات کے تحت زائرین کو جلد عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جانے کی اجازت دی جائے گی۔
خیال رہے کہ چند روز قبل حکام نے بتایا تھا کہ آرمی چیف رواں ہفتے کے آخر میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے اور جہاں اسلام آباد کے لیے مالی اعانت کے مسائل کے علاوہ کشمیر کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تناؤ کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
فوجی حکام نے اتوار کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا کہ ریاض پاکستان کی تنقید پر سخت ناراض ہے کہ سعودی عرب کشمیر کے علاقائی تنازع پر کچھ نہیں کر رہا۔
سعودی عرب نے دو ہفتے قبل پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کرنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے یہ اپنے قریبی اتحادی چین سے قرض لینے پر مجبور ہوگیا تھا جبکہ ابھی تک ریاض نے تیل کے قرضوں کی سہولت میں توسیع کی پاکستان کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ہفتے غیر معمولی طور پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف آف آرمی اسٹاف 16 اگست کو سعودی عرب کا دورہ کریں گے
گزشتہ سال اگست میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ملک میں ضم کر لیا تھا جس کے بعد سے پاکستان، اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم تصور کی جانے والی 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم سے وزرائے خارجہ اجلاس بلانے پر زور دے رہا ہے۔
اے آر وائی نیوز پر ایک ٹاک شو میں شرکت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر اسلامی تعاون تنظیم، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ دسمبر میں سعودی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی تھی اور اب پاکستانی ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
خیال رہے کہ او آئی سی کے کشمیر سے متعلق غیر فعال ہونے پر اسلام آباد میں مایوسی گزشتہ کئی ماہ سے بڑھ رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے فروری میں ملائیشیا کے دورے کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے اور ہماری صفوں میں تقسیم ہے، ہم کشمیر سے متعلق او آئی سی کے اجلاس میں مجموعی طور پر اکٹھے تک نہیں ہو سکتے۔
یاد رہے کہ ترکی، ملائیشیا اور ایران نے بھارت کی طرف سے کشمیر کے الحاق کو یکساں طور پر مسترد کیا تھا اور مقبوضہ وادی میں کشمیریوں پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔