افغان حکام نے آخری اور خطرناک طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کردیا
کابل: افغان حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے 400 طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کیا ہے جو دونوں متحارب فریقین کے مابین طویل عرصے سے تاخیر کا شکار امن مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔
ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کے کچھ دن کے اندر ملاقات کریں گے۔
مزید پڑھیں: بین الافغان مذاکرات کے لیے باضابطہ ایجنڈا طے نہیں کیا گیا
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو 80 قیدیوں کے ایک گروپ کو رہا کیا گیا اورقومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے براہ راست مذاکرات اور ملک گیر سیز فائر کے لیے کوششیں تیز ہوجائیں گی۔
ہفتے کے آخر میں 400 عسکریت پسندوں کی رہائی کی منظوری ہزاروں ممتاز افغانوں کے ایک اجتماع نے دی تھی جس نے کہا تھا کہ وہ دوحہ اور قطر میں بات چیت اور ممکنہ سیز فائر کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن سیکڑوں سخت گیر عسکریت پسندوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ نے ان کے ہاتھوں ہلاک افراد کے اہل خانہ کے لیے دل کی تکلیف کا باعث بنا ہے۔
2017 میں کابل میں جرمن سفارتخانے کے قریب ٹرک بم دھماکے میں ملوث عسکریت پسند کو بھی رہا کیا جاانے والا ہے اور اس دھماکے میں ہلاک شخص کے بھائی بشیر نوین نے کہا کہ اگر (طالبان) امن نہیں لا سکے اور وہ ایک بار پھر حملہ کرتے ہیں تو ہزاروں افراد ہلاک اور ان کے اہل خانہ کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پومپیو کی افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف
انہوں نے کہا لیکن اگر اصل امن آجاتا ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ ہمارا بڑا خواب امن ہے۔
ایک سرکاری فہرست کے مطابق ان قیدیوں میں کم از کم 44 ایسے باغی شامل ہیں جن کی رہائی کے حوالے سے امریکا اور دوسرے ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ مختلف ممالک میں بم دھماکوں میں ملوث رہے ہیں۔
آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ اس ہفتے کے اوائل میں انہوں نے افغان فوج کے ایک سابق فوجی کو جیل میں رکھنے کے لیے لابنگ کی جہاں اس فوجی نے بدمعاشی کرتے ہوئے تین آسٹریلوی ساتھیوں کو جیل میں ہلاک کردیا تھا۔
صدر اشرف غنی نے جمعرات کو متنبہ کیا کہ سخت گیر مجرموں سے ہمیں، امریکا اور دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے امریکی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا کہ کم از کم اس مسئلے تک امن کی خواہش پر اتفاق رائے ہوا تھا لیکن اس کی یہ قیمت طے نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم نے لاگت پر بڑی قسط ادا کردی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ امن کے نتائج برآمد ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھارت کے سائبر حملے کا سراغ لگا لیا
قیدیوں کا تبادلہ فروری میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہوئے والے معاہدے کا ایک حصہ تھا جس کے تحت مختلف معاہدوں کے نتیجے میں افغان حکومت سے امن معاہدے سمیت طالبان کی جانب سے کیے گئے مختلف وعدوں کے نتیجے میں امریکا اپنی فوجوں کے افغانستان سے انخلا پر راضی ہو گیا تھا۔
حکومت کو اس معاہدے سے خارج کردیا گیا تھا جس کے تحت باغیوں کی زیر حراست ایک ہزار سرکاری قیدیوں کے بدلے میں 5ہزار عسکریت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
جبکہ کابل نے معاہدے میں اتفاق رائے کے مطابق بہت سارے طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا لیکن اس نے حتمی 400 قیدیوں کو آزاد کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی۔
حکام کی جانب سے ان 400 قیدیوں کی رہائی کے انکار کے بعد اشرف غنی نے قبائلی عمائدین اور دیگر ممتاز شہریوں کا روایتی اجتماع لویا جرگہ بلایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں نے متحدہ عرب امارات-اسرائیل معاہدے کو یکسر مسترد کردیا
ایک قرارداد میں جرگے نے حکام سے کہا کہ وہ آزاد شدہ قیدیوں کی نگرانی کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ میدان جنگ میں واپس نہیں آئیں گے۔
جرگہ سے پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اجتماع سے قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کی تھی اگرچہ انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ اقدام "غیر مقبول" تھا۔
دریں اثنا طالبان نے انتباہ دیا ہے کہ افغانستان کی جاسوس ایجنسی اور داعش کی ملی بھگت سے رہا کیے جانے والے قیدیوں پر حملوں کا خطرہ ہے۔
یہ خبر 15اگست 2020 بروز ہفتہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔