چترال: ہوٹل کی بالکونی گرنے سے خواتین سمیت 5 سیاح جاں بحق
چترال میں مقامی ہوٹل کی بالکونی گرنے سے خواتین سمیت 5 سیاح جاں بحق اور 10 زخمی ہوگئے۔
پولیس اور ریسکیو ٹیموں کے مطابق واقعہ چترال کے مرکزی علاقے میں ترچ میرویو ہوٹل میں پیش آیا جہاں سیاح تیسری منزل پر مقیم سیاح سیلفی لینے بالکونی میں آئے جس کے بعد بالکونی گر گئی۔
مزید پڑھیں:بندشوں کے خاتمے کے بعد ملک کے سیاحتی مقامات کی رونقیں پھر بحال
پولیس کے مطابق متاثرہ سیاحوں کا تعلق پنجاب کے ضلع قصورسے تھا۔
ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ 'متاثرہ خاندان کے افراد ہوٹل کی تیسری منزل کی بالکونی میں سیلفی بنارہے تھے اور بالکونی اچانک گر گئی'۔
ان کا کہنا تھا کہ جاں بحق سیاحوں میں 2 خواتین بھی شامل ہیں۔
پولیس اور ریسکیو کی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ گئیں اور تمام زخمیوں کو ڈی ایچ کیو چترال منتقل کردیا جہاں چند زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور انتظامیہ کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو بہترین علاج فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جن زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے انہیں فوری طور پر پشاور منتقل کردیا جائے۔
ریسیکو عہدیداروں کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اندھیرا چھاجانے کی وجہ ممکن نہ ہوسکا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں سیاحت کی بحالی کا فیصلہ ٹھیک ہے؟
چترال پولیس اسٹیشن میں تعینات ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے تاحال واقعے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج نہیں کرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان کےسیکشن 174 کے تحت پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے اور واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کردیا جائے گا۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر متاثرہ خاندان کے کسی فرد نے پولیس سے رابطہ کیا تو پھر ایف آئی آر درج کرادی جائے گی۔
یاد رہے کہ 6 اگست کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کورونا وائرس کے باعث متعارف کرائی گئیں پابندیوں اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ریسٹورنٹس، مارکیٹوں، تفریحی اور سیاحتی مقامات کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔
حکومت کی جانب سے سیاحتی مقامات کھولنے کے اعلان کے بعد گلیات، چترال، گلگت بلتستان سمیت دیگر مقامات پر سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچ گئی تھی اور ہوٹلوں میں جگہ کم پڑگئی تھی۔
لاک ڈاؤن کے بعد 8 اگست سے سیاحت پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور'صرف دو روز میں ہی لاکھوں افراد نے مری، گلیات، کاغان ناران، سوات اور گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کا رخ کیا اور اس وقت ان مقامات پر تقریباً تمام ہوٹلوں کی بکنگ ہوچکی تھی'۔
گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے ترجمان احسن حمید کا کہنا تھا کہ 'دو روز میں کم و بیش ڈھائی لاکھ افراد نے گلیات کے سیاحتی مقامات کا رخ کیا اور تقریباً 80 ہزار گاڑیاں داخل ہوئیں'۔
ترجمان جی ڈی اے کے مطابق 'گلیات میں اتنا رش ہے کہ کسی ہوٹل میں کوئی جگہ نہیں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ '5 ماہ سے ہوٹل بند تھے جبکہ دو دنوں میں یکدم اتنا زیادہ رش ہوا ہے کہ ہوٹلوں میں گنجائش موجود ہی نہیں تاہم ہوٹل مالکان کا خسارہ کسی حد تک کم ہونے کا امکان ہے'۔
مزید پڑھیں:ملک بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن بھی ختم، ریسٹورنٹس، بازار، تفریحی مقامات کھولنے کا اعلان
ترجمان کا کہنا تھا کہ 'سیاحوں کو گلیات آنے سے نہیں روکا گیا تھا اس لیے ہفتہ وار چھٹیوں میں رش زیادہ ہو گیا تھا، جو آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا'۔
محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ 'گلگت بلتستان کے داخلی مقامات پر سیاحوں کی ہوٹلوں میں بکنگ اور کورونا ٹیسٹ بھی چیک کیا جا رہا ہے جبکہ ہوٹلوں میں جراثیم کش اسپرے بھی لازم قرار دیا گیا ہے'۔
ترجمان جی ڈی اے احسن حمید نے کہا تھا کہ 'چونکہ گلیات میں اس وقت سیاحوں کی تعداد گنجائش سے بڑھ چکی ہے اس لیے نوجوانوں، منچلوں کو گلیات کے داخلی مقامات سے واپس بھیجا جا رہا ہے اور صرف فیملیز کو داخلے کی اجازت ہے'۔
دوسری جانب گلگت بلتستان میں نوجوانوں اور انفرادی طور پر آنے والے سیاحوں کو بھی داخلے کے اجازت دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات پر رش میں اضافے کے بعد ہوٹل کے کمروں کے کرایوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔