جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر میں دوسرے نوٹس کا جواب جمع کرادیا
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو دوسرے اظہار وجوہ (شوکاز) نوٹس کا جواب جمع کروادیا۔
عدالت عظمیٰ کے جج کی اہلیہ سرینا عیسیٰ تیسری مرتبہ ایف بی آر حکام کے سامنے پیش ہوئیں اور لندن میں جائیداد کے ذرائع آمدن سے متعلق جواب دیا۔
ایف بی آر میں جمع کروائے گئے جواب میں انہوں نے لندن میں خریدی جانے والی جائیداد کے ذرائع آمدن کی تفصیلات سے آگاہ کیا تاہم بعد ازاں جواب جمع کروانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ ابھی کوئی بات نہیں کرسکتیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سرینا عیسیٰ نے پہلی مرتبہ 9 جولائی کو اپنا جواب جمع کروایا تھا جبکہ بعد ازاں 21 جولائی کو بھی وہ ٹیکس حکام کے سامنے پیش ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنے ٹیکس ریفرنس کی کاپی کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ہراساں کیے جانے کے ساتھ میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا جاری ہے، اہلیہ جسٹس عیسیٰ
یہاں یہ مدنظر رہے کہ سپریم کورٹ نے 19 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے تحقیق کا دائرہ کار صرف برطانیہ میں موجود 3 جائیدادوں تک محدود رکھا ہے، یہ جائیدادیں 2003 سے 2013 کے درمیان خریدی گئی تھیں۔
پہلی جائیداد سرینا عیسیٰ کے نام پر 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور بیٹے ارسلان فائز عیسیٰ کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی۔
علاوہ ازیں تیسری جائیداد 2 لاکھ 70ہزار پاؤنڈ میں سرینا عیسیٰ اور ان کی بیٹی سحر عیسیٰ کے نام پر خریدی گئی تھی۔
عدالتی حکم کے بعد سرینا عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں خود کو اور اپنے 2 بچوں کو جاری کردہ 3 نوٹسز کے تحریری جوابات جمع کرائے تھے۔
یہاں یہ مدنظر رہے کہ عام طور پر ٹیکس سے متعلق کارروائیوں میں ٹیکس کنندہ کی موجودگی لازمی نہیں ہوتی اور وکلا یا ای میل یا کیس کی پیروی کی جاسکتی ہے تاہم سرینا عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں جوابات جمع کرائے۔
سرینا عیسیٰ نے اپنے پہلے جواب کو پبلک بھی کیا تھا تاہم اس سے قبل انہوں نے ایک بیان بھی جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مجھے مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے اور میری تضحیک کی جارہی ہے جبکہ میں جھوٹے پروپیگنڈے کا سامنا بھی کررہی ہوں۔
بعد ازاں سرینا عیسیٰ نے اپنے پبلک کیے گئے پہلے جواب میں امید کا اظہار کیا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے عہدیداران خود کو استعمال کرنے یا خود کو دبائے جانے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ انہوں نے ایف بی آر سے یہی قانون وزیراعظم عمران خان، وزیر قانون فروغ نسیم، سابق اٹارنی جنرل انور منصور اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے چیئرمین شہزاد اکبر اور ان کے خاندانوں پر لاگو کرنے کی درخواست کی ہے۔
جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ 'ہر روز ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ [حکومت] 'مدینہ کی ریاست' کے لیے کوشاں ہیں، لہٰذا مجھے یقین ہے کہ یہ حضرات ایک عام ٹیکس ادا کرنے والی خاتون کو یہ بتانے میں بہت خوش ہوں گے کہ وہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں اور ان کی بیویوں اور بچوں کی جائیدادوں کی کیا حیثیت ہے اور اگر نہیں تو پھر مجھے ان سے سوالات کرنے پڑ سکتے ہیں'۔
کمشنر (آئی آر) اے ای او آئی ذوالفقار احمد کو جمع کرائے گئے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے حیرانی کا اظہار کیا تھا کہ کیا ایف بی آر کو وزیراعظم عمران خان سے سوال نہیں کرنا چاہیے کہ کیوں انہوں نے ان سے کم ٹیکس ادا کیا اور اب کسی طرح بہت مہنگی جائیداد خریدنے میں کامیاب ہوگئے اور 300 کنال کی بڑی حویلی میں رہتے ہیں۔ سرینا عیسیٰ نے سوال کیا تھا کہ کیا ایف بی آر کو وزیراعظم، اے آر یو چیئرمین، وزیر قانون اور سابق اٹارنی جنرل سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے کیسے' غیر قانونی طور پر ان کے ماضی کے انکم ٹیکس ریکارڈز حاصل کیے اور پھر ان کا انکشاف کیا'۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر افسران پر 'ہدایات' پر عمل کرنے کا الزام
انہوں نے کہا تھا کہ میں اس معاملے میں کسی کو بھی گھسیٹنا نہیں چاہتی لیکن گزشتہ سال سے میری کافی جاسوسی کی گئی، بدسلوکی اور ہراساں کیا گیا اور مجھے ایک عام مجرم کی طرح محسوس کرنے پر مجبور کیا گیا۔
علاوہ ازیں 30 جولائی کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسران پر اپنی ساکھ اور آزادانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے میڈیا میں جاری کردہ ایک صفحے پر مشتمل بیان میں الزام لگایا تھا کہ 'واضح طور پر، وہ (ایف بی آر افسران) ہدایات پر عمل کررہے ہیں'۔
اس بیان میں اس بات کی نشاندہی بھی کی تھی کہ کس طریقے سے انہوں نے 21 جولائی کو ایف بی آر کے کمشنر ذوالفقار احمد کو ذاتی طور پر دوبارہ خط لکھا جو انہوں نے کمشنر ایف بی آر کے 'جواب الجواب' میں لکھا تھا۔
خط میں انہوں نے اپنے 12 سوالات دوبار ہ پیش کیے جو انہوں نے 9 جولائی کو لکھے گئے اپنے پہلے خط میں اٹھائے تھے۔ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ میں ابھی بھی جوابات کا انتظار کر رہی ہوں۔