• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 سے تجاوز کر گئی، 5 ہزار زخمی

شائع August 5, 2020 اپ ڈیٹ August 6, 2020
بیروت میں دھماکے کے بعد تباہی کے مناظر— فوٹو: اے ایف پی
بیروت میں دھماکے کے بعد تباہی کے مناظر— فوٹو: اے ایف پی

لبنان کے دارالحکومت بیروت کے وسط میں واقع ساحلی ویئرہاؤس میں ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 سے تجاوز کر گئی ہے اور 5 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ اموات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ریسکیو اور ایمرجنسی ادارے ملبے کے ڈھیر سے لاشیں نکال رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی بیروت دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وزیرصحت حامد حسن کا کہنا تھا کہ 135 ہلاکتوں کے علاوہ 5 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے باعث 2 لاکھ 50 افراد بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ گھروں کا سامان سڑکوں میں بکھر گیا ہے۔

حامد حسن نے کہا کہ سیکڑوں لوگ تاحال لاپتہ ہیں جبکہ وزیراعظم حسن دیاب نے تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا ہے۔

یہ معاشی بحران سے دوچار اور کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نبردآزما بیروت میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہونے والا سب سے بڑا دھماکا ہے۔

صدر مچل عون نے کہا کہ 2 ہزار 750 ٹن امونیم نائٹریٹ کا فرٹیلائزر اور بموں میں استعمال کیا گیا جسے بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے چھ سال سے پورٹ پر ذخیرہ کیا جا رہا تھا اور یہ عمل ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے بدھ کو کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے دو ہفتے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

لبنان ریڈ کراس کے سربراہ جیارج کیتانی کا کہنا تھا کہ ہم مکمل تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، یہاں ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ تنازع: بھارت نے چین کے جواب میں بھاری نفری تعینات کردی

انہوں نے کہا تھا کہ اب تک کم از کم 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ہم علاقے کو صاف کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔

مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے ہونے والے اس دھماکے کے ملبے سے ابھی تک دھواں بلند ہو رہا ہے اور دھماکے چند گھنٹوں بعد نارنجی رنگ کے بادل نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کو بیرون شہر سے باہر لے جایا جا رہا ہے کیونکہ بیروت کے ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ ملک کے جنوبی اور شمالی علاقوں سے تمام ایمبولینسز کو طلب کر لیا گیا۔

3.5 شدت کا زلزلہ اور ایٹمی دھماکا

جرمنی کے جیولوجیکل ادارے کے مطابق بیرون میں دھماکے سے 3.5 شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا جبکہ اس کی شدت سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی ایٹمی دھماکا ہو گیا ہے۔

اس دھماکے سے 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کی یاد تازہ ہو گئی جب لبنان میں آئے دن دھماکے، شیلنک اور اسرائیل کی فضائی کارروائیاں ہوتی تھیں۔

دھماکے کے بعد کچھ مقامی افراد کو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی زلزلہ آ گیا ہے اور زخمی اور روتے پیٹتے افراد اپنے پیاروں کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتے ہوئے نظر آئے۔

مزید پڑھیں: چین، ٹک ٹاک کی امریکی 'چوری' قبول نہیں کرے گا، سرکاری میڈیا

کچھ افراد کو اپنے رشتے دار ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مل گئے جہاں ایک طبی عملے نے بتایا کہ صرف ایک ہسپتال میں 200 سے 300 افراد کو ایمرجنسی میں داخل کیا گیا ہے۔

طبی عملے کے ایک اور فرد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج تک ایسا نہیں دیکھا، یہ انتہائی خطرناک تھا۔

بیروت کی ڈیزائنر ہدیٰ برودی نے کہا کہ دھماکے نے مجھے کئی میٹر دور اٹھا کر پھینک دیا، میں چکرا گئی اور مکمل طور پر خون سے لت پت تھی، اس دھماکے سے ایک اور دھماکے کی یاد تازہ ہو گئی جو میں نے 1983 میں امریکی سفارتخانے میں دیکھا تھا۔

وزیر اعظم حسن دیاب نے قوم سے کہا کہ خطرناک ویئرہاؤس میں دھماکے کے ذمے داران کا احتساب کیا جائے گا اور ذمے داروں کو قیمت ادا کرنا ہو گی۔

یہ دھماکے اتنے شدید تھے کہ اس کی شدت 240 کلومیٹر دور قبرص تک محسوس کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نیویارک: کشمیریوں پر بھارتی مظالم اجاگر کرنے کیلئے ٹائمز اسکوائر پر بل بورڈز روشن

بیروت میں امریکی سفارتخانے نے خطرناک گیسز کے انخلا کی رپورٹس پر اپنے شہریوں کو خبردار کردیا کہ وہ گھروں میں رہیں، غیرضروری طور پر باہر نہ نکلیں اور اگر ممکن ہو تو ماسک پہنے رہیں۔

دھماکے کی فوٹیج بنانے والوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کی ہیں جس میں ہر سو دھویں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ دو کلومیٹر دور سے ویڈیو بنانے والے افراد بھی دھماکے کی شدت سے پیچھے جا گرے تھے۔

بیروت کی سڑکوں اور تباہ حال عمارتوں، ملبے کے ڈھیر اور تباہ شدہ گاڑیوں اور فرنیچر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہاں کوئی زلزلہ آیا۔

حکام ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ دھماکا کس وجہ سے ہوا تاہم ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ یہ ویئرہاؤس میں ویلڈنگ کے کام کے دوران کسی غفلت کی وجہ سے ہوا۔

حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک دھماکے سے ہونے والی تباہی کا تخمینہ لگانے سے قاصر ہیں۔

لبنان کے وزیر اعظم نے بدھ کو ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔

مزید پڑھیں: کامیاب حج کا انعقاد، سعودی عرب کا عمرہ بحال کرنے پر غور

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دھماکا ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عدالت 3 دن بعد ہی 2005 بم دھماکوں میں ملوث حزب اللہ کے چار ملزمان کے مقدمے کا فیصلہ سنانے والی تھی۔

2005 میں بیروت میں ٹرک دھماکے میں سابق وزیر اعظم رفیق الحریری سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور وہ دھماکا بھی ساحل سے محض دو کلومیٹر دور ہوا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے بیروت میں دھماکے اور قیمتی جانوں کے ضیاں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں اپنے لبنانی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی۔

اسرائیل نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ لبنان سے کئی جنگیں لڑنے والے اسرائیل کا مذکورہ دھماکے سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان کا ملک انسانی اور طبی امداد کے لیے تیار ہے۔

حزب اللہ کی حمایت کرنے والے ایران نے بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ ایران کے حریف سعودی عرب نے بھی امداد کا یقین دلایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حج کے دوران خانہ کعبہ میں تنہا عبادت کرنے والی خوش نصیب خاتون

قطر اور عراق کا کہنا تھا کہ وہ عارضی ہسپتال بھیج رہے ہیں تاکہ زخمیوں کو بروقت امداد مل سکے جبکہ امریکا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ امداد کے لیے تیار ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ دھماکا ممکنہ طور پر حملہ ہو سکتا ہے اور جب ان سے اس حوالے سے مزید تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ان کی چند امریکی فوجی جنرلز سے ملاقات ہوئیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی عام دھماکے کا واقعہ نہیں ہو سکتا۔

البتہ دو امریکی عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ابتدائی تفتیش ٹرمپ کے بیانیے کی نفی کرتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024