توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل
پشاور: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے توہین مذہب و رسالت کے ملزم کے مشتبہ قاتل کو 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
واضح رہے کہ 29 جولائی کو پشاور کی جوڈیشل کمپلیکس میں کمرہ عدالت کے اندر توہین مذہب و رسالت کے ملزم ایک امریکی شہری طاہر احمد نسیم کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
ایک سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پولیس ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ شخص 17 سال کا تھا اور وہ نابالغ ہے۔
ابتدائی طور پر 30 جولائی کو مشتبہ شخص کو 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں دیا گیا تھا، بعد ازاں عدالت نے ایک روز کے لیے ریمانڈ میں توسیع کی تھی۔
مزید پڑھیں: پشاور جوڈیشل کمپلیکس کے کمرہ عدالت میں توہین رسالت کا ملزم قتل
علاوہ ازیں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، جہاں پولیس نے گل آباد علاقے کے رہائشی مشتبہ قاتل کو پیش کیا۔
اس موقع پر لوگوں خاص طور پر وکلا کی بڑی تعداد میں وہاں موجود تھی، جس میں سے زیادہ تر مشتبہ شخص کی تصاویر اور اس لمحے کو فلمانہ چاہتے تھے، مزید یہ کہ انہوں نے نعرے بازی کی اور ملزم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔
یہی نہیں بلکہ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے وکلا بھی ملزم کے کیس کی پیروی کی خواہش لیے کمرہ عدالت میں پہنچے۔
دوران سماعت محکمہ انسداد دہشت گردی سمیت پولیس کے حکام نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ افسران کی ایک ٹیم معاملے کو دیکھ رہی ہے اور کچھ سوالوں کے جواب میں مزید وقت درکار ہے۔
تاہم عدالت نے اس استدعا کو مسترد کرتے ہوئے جے آئی ٹی کو کہا کہ وہ جیل میں ملزم کے پاس جائیں۔
واضح رہے کہ ملزم کو کمرہ عدالت میں زیرسماعت قیدی کو قتل کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں کینٹ شرقی تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
علاوہ ازیں ملزم کے والد نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کا بیٹا ہفتہ (25 جولائی) جو یہ کہہ کر گھر سے نکلا تھا کہ وہ مدرسے میں داخلے کے لیے جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں اس قتل کے بارے میں سوشل میڈیا سے معلوم ہوا۔
خیال رہے کہ مقتول کے خلاف 25 اپریل 2018 کو سربند تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 153 اے، 295 اے، 295 بی، 295 سی اور 298 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص پر مقدمہ
یہاں یہ یاد رہے کہ ان دفعات میں توہین مذہب و توہین رسالت کی دفعات شامل ہیں۔
اس مقدمے میں شکایت کنندہ نوشہرہ کا رہائشی اور اسلام آباد کے مدرسے میں پڑنے والا شخص ملک اویس تھا۔
شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ مرنے والا شخص جھوٹے مذہبی دعوے کرتا ہے اور اس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اسے خوابوں میں وہی نازل ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں 4 فروری 2019 کو مقتول پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153 اے، 295 اے اور 298 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ چارج شیٹ میں دفعہ 295 بی اور سی کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم مقتول نے تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے ٹرائل کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ خبر 04 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی