کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست 3 اگست کو سماعت کیلئے مقرر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی اجازت سے متعلق وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست عیدالاضحی کی تعطیلات کے بعد پہلے کاروباری روز 3 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ڈویژن میں سماعت کے لیے مقرر مقدمات کی ضمنی فہرست کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ پیر (3 اگست) کو دوپہر ڈیڑھ بجے درخواست کی سماعت کرے گا۔
رجسٹرار آفس نے وزارت قانون و انصاف اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آگاہ کردیا، جنہوں نے درخواست دائر کی تھی۔
خیال رہے کہ چند روز قبل وفاقی حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا تا کہ سزا سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔
مزید پڑھیں: حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی استدعا
بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) اور بھارتی حکومت کی جانب سے کلبھوشن کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کی درخواست سے گریز کیے جانے کے بعد حکومت نے سیکریٹری قانون کے توسط سے درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں سیکریٹری دفاع اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) کو فریق بنایا گیا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کے لیے وکیل مقرر کرے۔
درخواست کے مطابق بھارتی نیوی کا کمانڈر کلبھوشن یادیو 3 مارچ 2016 کو پاکستان میں داخل ہوا اور بلوچستان کے علاقے ماشاخیل میں خفیہ اطلاع پر کیے گئے آپریشن میں پاکستانی حکام نے اسے گرفتار کیا۔
کلبھوشن نے بھارتی ایجنسی 'را' سے اپنی وابستگی کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں جاسوسی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
حکومتی درخواست میں بتایا گیا تھا کہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد 'را' ایجنٹ کو 10 اپریل 2017 کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
بعدازاں جولائی 2019 میں عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی جائے اور اس کے کیس پر مؤثر نظر ثانی اور دوبارہ غور کیا جائے۔
پاکستان نے بھارت کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ریویو اینڈ ری کنسڈریشن) آرڈیننس 2020‘ کے تحت فوجی عدالت کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی درخواست دائر کرنے کی دعوت دی تھی۔
بھارتی جاسوس کی جانب سے قانون کا فائدہ اٹھانے سے انکار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس اپنی رحم کی اپیل پر ہمدردی دکھانے پر اصرار کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان نے یہ پیشکش بھارتی حکومت کو کی تھی۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ پاکستان، بھارتی جاسوس کو 2 مرتبہ قونصلر رسائی فراہم کرچکا ہے جبکہ تیسری مرتبہ قونصلر افسران کی ملاقات کروانے کی بھی پیشکش بھی کی جاچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ
پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد کو نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا تھا۔
رواں ہفتے حکومت پاکستان نے آئی سی جے کے فیصلے کے مطابق کلبھوشن یادیو کو قونصل رسائی دینے کے لیے رواں ہفتے آئی سی جے( ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن) آرڈیننس 2020 قومی اسمبلی پیش کیا تھا۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا تھا۔
آرڈیننس کے سیکشن 2 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ
یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس: ایڈہاک جج کا اختلافی نوٹ میں پاکستان کا دفاع، بھارت پر تنقید
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔
بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔
عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے کا اعلان
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔
جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔
بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی
قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔