• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

ایف اے ٹی ایف بلز نے ایک بار پھر اپوزیشن میں اختلافات ظاہر کردیے

شائع July 31, 2020
جے یو آئی ف نے مستقبل میں پارلیمان میں دونوں اپویشن جماعتوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا—فائل فوٹو: اے پی پی
جے یو آئی ف نے مستقبل میں پارلیمان میں دونوں اپویشن جماعتوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے عید کے بعد حکومت کے خلاف مشترکہ مہم چلانے کے اعلان کے ایک ہفتے بعد ہی ان جماعتوں میں دراڑ سامنے آگئی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پارلیمان سے ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز پاس کروانے میں حکومت کی مدد کرنے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف احتجاج کیا اور مستقبل میں پارلیمان میں دونوں اپویشن جماعتوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے مذکورہ اعلان جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن اور مولانا غفور حیدری نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق دونوں بلز سینیٹ سے بھی منظور

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ بدھ کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود بلز کی منظوری کے بعد حکومت نے سینیٹ میں بل کی بغیر رکاوٹ منظوری کے لیے اسپیکر اسد قیصر کے ذریعے اپوزیشن سے رابطہ کیا تھا جہاں اپوزیشن اراکین کی اکثریت ہے۔

اپوزیشن نے اپنی تجویز کردہ ترامیم کے بغیر قومی اسمبلی سے اس کی منظوری پر احتجاج کیا جس پر حکومت ان ترامیم کو کمیٹی اجلاس کی سطح پر بلز میں شامل کرنے پر رضا مند ہوگئی۔

ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے سینیٹ میں اپوزیشن کے زیادہ سے زیادہ اراکین کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے سخت کوششیں کیں تا کہ اگر حکومت ان ترامیم کو شامل کرنے سے انکار کرے تو اسے ٹف ٹائم دیا جاسکے۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے اسپیکر اسمبلی کو بتایا کہ اگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی موجود ہوں گے تو حکومت کے ساتھ بات چیت نہیں کی جائے گی کیوں کہ انہوں نے غیر رسمی گفتگو کی تفصیلات بتا کر راز داری کی خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: قوم کو ملکی مفاد کی قانون سازی کی جیت اور ذاتی مفاد کی شکست مبارک ہو، مراد سعید

چنانچہ حکومتی ٹیم میں اتفاق رائے کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم، عامر ڈوگر، اور پی پی پی کی شیری رحمٰن اور نوید قمر نے اسپیکر کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس کے بعد حکومت نے غیر معمولی طور پر آدھی رات کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس طلب کیا۔

بعدازاں بلز پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور کمیٹی چیئرمین جاوید عباسی نے بلز میں اپوزیشن کی ترامیم کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے پر وزیر قانون کو سراہا۔

ایک جانب جہاں حکومتی بینچز سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے طرزِعمل کی تعریف کی جارہی تھی تو وہیں جے یو آئی ایف کے اراکین نے دونوں جماعتوں پر ہمیشہ اپوزیشن کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔

مولانا عطا الرحمٰن نے کہا کہ ’جس طرح اپوزیشن جماعتوں سے (بلز پر) حکومت سے تعاون کیا وہ مایوس کن ہے جبکہ ہمارا مؤقف تک نہیں سنا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: بل جو غیر متنازع ہوسکتا تھا حکومت نے متنازع کردیا، بلاول

انہوں نے کہا کہ ترامیم کے ذریعے حکومت کو حمایت فراہم کر کے دونوں جماعتوں نے ’اپوزیشن کی کمزوری‘ عیاں کردی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں شکایت ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں ہمیشہ حکومت کی حمایت کرتی ہیں، انہوں نے کبھی اپوزیشن کو یکجا کرنے کی کوشش نہیں کی، اس لیے آج سے جے یو آئی (ف) اپوزیشن کے ساتھ نہیں چلے گی۔

بعدازاں مولانا غفور حیدری نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے کبھی بھی اہم معاملات پر ان سے مشاورت نہیں کی اور معاملات یونہی چلتے رہے تو ان کے لیے ’ساتھ چلنا مشکل ہوجائے گا‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024