پارک لین ریفرنس:زرداری کیخلاف نیشنل بینک کے دو سابق صدور وعدہ معاف گواہ بن گئے
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ پارک لین ریفرنس میں دو ملزمان سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب نے قبل ازیں نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کے سابق صدور علی رضا اور قمر حسین کو اس کیس میں ملوث کیا تھا تاہم اب احتساب کے ادارے نے اپنی حیثیت تبدیل کردی اور انہیں استغاثہ کے گواہوں کی فہرست میں شامل کردیا۔
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر خان عباسی نے احتساب عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ بینک کے دونوں سابق سربراہان اُن 61 گواہان میں شامل ہیں جنہیں استغاثہ سابق صدر کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہے۔
نیب کے مطابق علی رضا نے اپنے اعترافی بیان میں دعویٰ کیا کہ اومنی گروپ کے ڈائریکٹر عبد الغنی مجید، این بی پی کے سینئر منیجمنٹ اور سابق صدر کے درمیان 'مڈل مین' تھے کیونکہ انہوں نے قرض کی منظوری کے لیے آصف زرداری کا پیغام پہنچایا تھا۔
مزید پڑھیں: پارک لین ریفرنس: آصف زرداری پر ایک مرتبہ پھر فرد جرم عائد نہ ہوسکی
ڈپٹی پراسیکیوٹر نے ریفرنس میں آصف زرداری کی بریت کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ وہ پارک لین کیس میں ان پر فرد جرم عائد کرے اور استغاثہ کو ان کے اور دیگر ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرنے کے اہل بنائے۔
خیال رہے کہ آصف زرداری پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ پارتھینن پرائیویٹ لمیٹڈ، پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ اور دیگر کی طرف سے 'قرض میں توسیع اور اس کے غلط استعمال میں ملوث تھے'۔
اپنے دلائل میں آصف زرداری کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سابق صدر پارک لین کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں لیکن انہوں نے صدر مملکت کا منصب سنبھالنے سے قبل 2008 میں کمپنی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
وکیل دفاع نے کہا کہ نیب نے ان کے مؤکل کے خلاف ریفرنس دائر کرتے وقت حسب معمول تمام مالیاتی قوانین کو نظرانداز کیا۔
انہوں نے کہا کہ نیب آصف زرداری کے خلاف اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی لازمی منظوری/ریفرنس کے بغیر اس کیس میں کارروائی نہیں کرسکتا تھا۔
انہوں نے کہا یہ جان بوجھ کر ڈیفالٹ (ول فل ڈیفالٹ) ہونے کا معاملہ تھا اور اسٹیٹ بینک واحد فورم تھا جو ان کے مؤکل کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتا تھا تاہم نیب نے معاملہ اٹھایا اور متعلقہ مالی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس معاملے میں خود سے تحقیقات شروع کردی۔
یہ بھی پڑھیں: 'آصف زرداری کا عذیر بلوچ اور لیاری گینگ وار پر ہاتھ تھا'
اس معاملے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے وکیل نے نشاندہی کی کہ 30 اکتوبر 2009 کو جب پارتھینن پرائیویٹ لمیٹڈ نے قرض حاصل کیا تو صدر آصف زرداری کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں تھے بلکہ وہ پارک لین کے شیئر ہولڈر تھے۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے آصف زرداری کا استعفیٰ قبول کرلیا تھا تاہم وہ اس معاملے کو وقتی طور پر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) تک نہیں پہنچا سکا تھا۔
جب جج نے استفسار کیا کہ پارتھینن جب قرض وصول کررہا تھا تو پارک لین نے اس کی جائیدادوں کو کیوں مورٹگیج کیا تو فاروق ایچچ نائیک نے جواب دیا کہ وہ ایک طرح کی شراکت میں تھے اور اس نے اس عمارت کی تعمیر کے لیے ایک پلاٹ پیش کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ این بی پی کی کریڈٹ کمیٹی نے پارتھینن کے لیے قرض کی منظوری دی تھی لیکن نیب نے بھی اس حوالے سے این بی پی کے کسی ایک اہلکار کو ملوث نہیں کیا۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اس کے بجائے ان افراد کو جو مقدمے میں ملزم ہوسکتے ہیں انہیں استغاثہ کا گواہ درج کیا گیا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پارک لین ریفرنس میں مزید کارروائی 7 اگست تک ملتوی کردی۔
فرد جرم موخر
دریں اثنا احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے آصف زرداری اور ان کی بہن فرال تالپور کی منی لانڈرنگ کیس میں ذاتی پیشی سے استثنیٰ کی درخواستوں کو قبول کرلیا۔
بعد ازاں عدالت نے اس معاملے میں اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور حسین لوائی سمیت دونوں بہن بھائیوں اور دیگر ملزمان پر فرد جرم 7 اگست تک مؤخر کردی۔