ترک پارلیمنٹ سے سوشل میڈیا پر کنٹرول بڑھانے سے متعلق متنازع بل منظور
ترکی کی پارلیمنٹ نے سوشل میڈیا پر حکومت کے زیادہ کنٹرول کے لیے متنازع منظور کر لیا جس کے بعد ملک میں آزادی اظہار سے متعلق خدشات نے جنم لیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق ترک پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نئے قانون کے تحت بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ فیس بک اور ٹوئٹر کو اپنے نمائندوں کی ترکی میں موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا اور مخصوص مواد ہٹانے سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔
نئے قانون کے مطابق عمل نہ کرنے والی کمپنیوں پر جرمانہ ہوسکتا ہے، ان کے اشتہار روکے جاسکیں گے یا بینڈوِتھ کو 90 فیصد تک کم کردیا جائے گا، ویب سائٹس تک روکی جاسکے گی۔
قانون میں، جس کے ذریعے یومیہ 10 لاکھ سے زائد منفرد استعمال کنندہ سوشل نیٹ ورکس کو ہدف بنایا گیا ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ترکی کے یوزرز کے ڈیٹا پر مشتمل سرورز کو لازمی طور پر ترکی میں رکھا جائے گا۔
پارلیمنٹ میں بل حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے) پارٹی اور اس کی قوم پرست حلیف نیشنل موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، جس کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا نیا نقصان سامنے آگیا
بل کی منظوری پر انسانی حقوق کے گروپوں اور اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ترکی میں آزادی اظہار کا خاتمہ ہے، جہاں سوشل میڈیا پر صدر رجب طیب اردوان کی 'توہین' پر فوجداری کارروائی معمول کی بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر کنٹرول بڑھنے سے اس ملک میں آزاد اور ضروری معلومات تک رسائی محدود ہوجائے گی جہاں نیوز میڈیا حکومت کے حامی کاروباری افراد کے ہاتھ میں ہے یا اسے ریاست چلاتی ہے۔
'سوشل میڈیا لائف لائن ہے'
ہیومن رائٹس واچ نے اس قانون پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حکومت کو سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کا موقع ہاتھ آجائے گا، وہ اپنی مرضی سے مواد ہٹائے گی اور وہ اپنی من مانی کرکے افرادی صارفین کو ہدف بنائے گی۔
قانون منظور ہونے سے قبل اپنے بیان میں ادارے کے نائب پروگرام ڈائریکٹر ٹام پوٹیس کا کہنا تھا کہ 'سوشل میڈیا ان بیشتر لوگوں کے لیے لائف لائن ہے جو اسے خبروں تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے یہ قانون آن لائن سینسر شپ کے تاریک دور کی طرف اشارہ ہے۔'
پارلیمنٹ میں بل کی منظوری سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے ترجمان نے کہا کہ 'اس قانون سے ریاست کو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے زیادہ طاقت مل جائے گی۔'
مزید پڑھیں: آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے پر تنقید کو ترک صدر نے مسترد کردیا
تاہم صدارتی ترجمان ابراہیم کالِن کا کہنا تھا کہ 'بل سے سینسرشپ کی راہ ہموار نہیں ہوگی بلکہ اس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ کمرشل اور قانونی تعلقات قائم ہوں گے۔'
واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں رجب طیب اردوان نے سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔' وہ بہت زیادہ مشہور ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر اکثر کرتے رہتے ہیں۔
ترک عدالت نے تقریباً تین سال بعد جنوری میں انسائیکلوپیڈیا 'وِکی پیڈیا' سے پابندی اٹھالی تھی۔