انور علی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کیلیے تیار
یہ 2006 میں کراچی کا ایک روایتی گرم دن تھا اور پاکستانی فیلڈرز کے پسینے چھوٹے ہوئے تھے کیونکہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہندوستانی بلے باز مہندرا سنگھ دھونی اور یوراج سنگھ جم کر باؤلرز کی پٹائی کر رہے تھے اور بلاآخر آٹھ وکٹوں سے ایک آسان فتح کے ساتھ ہی مہمان ٹیم نے سیریز چار – ایک سے اپنے نام کر لی۔
پاکستان کرکٹ کے بہت سے شائقین مایوسی کے عالم میں اسٹیڈیم سے نکلتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کس طرح ہندوستان نے پاکستان پر اپنا غلبہ ثابت کر دیا اور کس طرح انہوں نے محمد سمیع اور راؤ افتخار انجم پر مشتمل ایک غیر معیاری باؤلنگ اٹیک کو سبق سکھاتے ہوئے یہ باور کرایا کہ پاکستان میں فاسٹ باؤلنگ کا مستقبل دم توڑ رہا ہے اورآگے بھی تاریک دکھائی دیتا ہے۔
میدان سے باہر موجود مایوس پاکستانی شائقین کے درمیان ایک خاموشی سی طاری تھی کہ اچانک نو رنز پر چھ وکٹیں گرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی اور نیشنل سٹیڈئیم کے اطراف موجود سبھی لوگوں کی گفتگو کا محور ایک انجان فاسٹ باؤلر انور علی بن گیا۔
کچھ ہی لمحوں بعد پاکستانی شائقین کی ساری توجہ سری لنکا کے شہر کولمبو کی جانب چلی گئی جہاں انور نے شاندار باؤلنگ (پینتیس رنز کے عوض پانچ وکٹیں)کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستانی بیٹنگ لائن کو تباہ کر دیا تھا۔
اس کارکردگی کے بعد تو ایسا لگنے لگا کہ پاکستانی فاسٹ باؤلرز کا مستقبل روشن ہو گیا ہے اور ہماری اس شعبے میں برتری برقرار رہے گی کیونکہ یہ پرفارمنس انڈر نائنٹین کا ورلڈ کپ فائنل میں سامنے آئے تھی، جسے دونوں ٹیموں کے ٹیلینٹ کے درمیان مستقبل کی جنگ قرار دیا جا سکتا تھا۔
انور نے ڈان ۔ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ' ہم اپنے حریف کھلاڑیوں چتیشور پجارا، روہیت شرما اور رویدرا جدیجا کو اس وقت بالکل نہیں جانتے تھے لیکن آج یہ دنیا بھر میں مشہور ہو چکے ہیں۔' یہ میرے کرئیرایک یادگار لمحہ تھا'۔ انور کو فائنل میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا اور اس طرح پاکستان نے اس میچ میں یقینی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔
سکول اور پھر کلب کی سطح پر کرکٹ کو بہت زیادہ وقت دینے کے باعث انور کے والد نے کبھی بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود انور کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی نہیں آئ
فاسٹ باؤلر نے کئی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بھی بنائی اور اس پاکستان کرکٹ کلب کا حصہ بنے جس کے کئی لڑکے قومی ٹیم حصہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انور دراصل کراچی میں زونل کرکٹ کھیل کر منظر عام پر آئے جس کے بعد انہیں انڈر 19 کیمپ کیلیے طلب کیا گیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے انور پہلے سے موجود ایک سسٹم میں اپنی صلاحتیوں کی بل بوتے پر رفتہ رفتہ اوپر آئے اور انڈر 19 ٹیم میں شامل ہوئے۔
وہ کہتے ہیں: میں بچپن سے ہی عمران خان کو اپنا ہیرو سمجھتا تھا لیکن پھر موجودہ زمانے کے بریٹ لی، شعیب اختر اور عمر گل سے کافی متاثر کیا۔
'فاسٹ باؤلنگ میرا مشغلہ تھا۔ عمران اور گل نے بھی اپنے کیریئر کی ابتدا میں ان سوئنگ باؤلنگ کی اور میں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوے جونیئر لیول پر کامیابی حاصل کی'۔
سن 2006 میں انڈیا کے خلاف شاندار باؤلنگ کی ویڈیو یو ٹیوب پروائرل ہونے کے بعد انور کا قدرتی ٹیلنٹ سب کے سامنے آ گیا۔
فاسٹ باؤلر کا ماننا ہے کہ ان کے کرئیر کے ابتدائی سالوں میں کوچنگ کی عدم موجودگی سے انہیں بے پناہ فائدہ ہوا۔
میں قدرتی طور پر ان سوئنگ کرتا ہوں۔ جب میں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی تو مجھے نہیں بتایا گیا کہ کس طرح گیند کرنی ہے لیکن میری گیند قدرتی طور پر ان سوئنگ ہوتی تھی۔ بعد میں مجھے صحیح لائن اور لینتھ پر ان سوئنگ کرنے کیلیے نیٹس میں کافی محنت کرنا پڑی۔
تاہم قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ نوجوان باؤلر غیر متوقع طور پر عالمی کرکٹ میں ابھی تک اپنی جگہ بنانے می ناکام رہے ہیں ۔
ایک 2011 پچیس سالہ انور کے کریئر میں بہت سی یاد گار لمحات ہیں، جن میں سے میں اسٹیٹ بینک کے خلاف چوتھی اننگ میں 16 رنز کے عوض 8 وکٹیں حاصل کرنا بھی تھا۔
عام طور پر وہ تسلسل کے ساتھ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں جنہیں کبھی کبھار قومی ٹیم کیلیے منتخب تو کر لیا جاتا ہے لیکن وہ فائل الیون کا حصہ بننے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے باوجود انور کے عزم میں کوئی فرق نہیں آیا اور اب بھی ان کا ہدف گرین کیپ پہن کر پاکستان کیلیے کھیلنا ہے۔
'ٹیسٹ کرکٹر بننا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے اور میرا بھی یہی خواب ہے۔ مجھے تماشائیوں کی بڑی تعداد کی طرح چوکوں، چھکوں اور جلد از جلد ملنے والی وکٹوں کی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی پسند ہے کیونکہ میں نے اسی فارمیٹ میں نے پاکستان کی نمائندگی کی، لیکن ٹیسٹ کرکٹ ہی میرا پسندیدہ فارمیٹ ہے'۔
انور اپنی ٹیم کے سینیئر کھلاڑیوں کے تجربے سے سیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے کریئر کے آغاز میں ملنے والی شہرت کو پھر سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن ساتھ وہ یہ بات بھی اچھی طرح سیکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی کھلاڑی صرف ایک شعبے میں مہارت کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
اسی وجہ سے وہ نیٹ میں بیٹنگ پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں 19.66 کی بیٹنگ اوسط کے حامل انور پاکستانی ٹیم میں موجود ایک اچھے آل راؤنڈر کا خلا پُر سکتے ہیں۔
'پی آئی اے کی جانب سے کھیلتے ہوئے اعزاز چیمہ اور شعیب ملک کے ساتھ باؤلنگ انتہائی خوش کن رہا'۔
'دونوں کھلاڑیوں نے پاکستان کرکٹ کیلیے خدمات انجام دی ہیں اور ان سے سیکھنا کافی مددگار ثابت ہوا'۔
انور کہتے ہیں کہ انہوں نے موجودہ سیزن میں سخت محنت کی ہے اور وہ اپنے مداحوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی تمام تر کوششیں کا مقصد انہیں ایک مختلف انور علی بن کر دکھانا ہے۔
اس سال، رمضان ٹی ٹوئنٹی میں رنر اپ رہنے والی پی آئی اے کی نمائندگی کرنے والے انور علی کا ماننا ہے کہ وہ اور ان جیسے دوسرے کھلاڑیوں کو پاکستان میں عالمی کرکٹ کے نہ ہونے سے بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
'یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) ملک میں عالمی کرکٹ واپس لے کر آئے، اس سے تماشائی آئیں گے، کرکٹ میں دلچسپی بڑھے گی اور سب سے بڑھ کر ڈومیسٹک کرکٹ کو کافی مدد ملے گی'۔
'پی سی بی کی اپنی لیگ کرکٹ جو عالمی کرکٹرز کو متوجہ کر سکے، بہت مدد گار ثابت ہو گی۔ عالمی سٹارز کے ساتھ مقامی کھلاڑیوں کے ڈریسنگ روم شیئر کرنے سے بھی ہمیں بہت فائدہ ہو گا'۔
انور کچھ لوگوں کی توقعات کے برعکس شاید کبھی بھی لیجنڈ کھلاڑی کا درجہ حاصل نہ کر سکیں کیونکہ پچیس سال کی عمر میں بھی انہیں ابھی تک انڈر نائنٹین کے ایک میچ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔
یہاں سلیکٹرز سے ایک سوال ہے کہ ایک باصلاحیت کھلاڑی کو سکواڈ کا حصہ تو بنا دیا جاتا ہے لیکن فائنل الیون میں اس کی جگہ کیونکہ نہیں بن پاتی ۔
اس حوالے سے کوچ اور کپتان کے خیالات پر غور کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ وہی فیصلہ کرتے ہیں کہ میچ میں کن گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ میدنا میں اترنا ہے۔
انور کی پوری توجہ اپنے کھیل پر مرکوز ہے اور جس طریقے سے وہ بیٹ اور بال دونوں سے کارکردگی دکھانے کیلیے محنت کر رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ 2006 میں کولمبو میں دکھائی جانے والی کارکردگی یقیناً زیادہ دور نہیں۔
لکھاری: سمیر طیب علی
تبصرے (1) بند ہیں