بھارتی سیکیورٹی فورسز کیلئے مقبوضہ کشیر میں زمین کا حصول آسان بنادیا گیا
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی حکومت نے سیکیورٹی فورسز کو زمین کے حصول کے لیے درکار 1971 کے سرکلر کے مطابق نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کی شرط ختم کردی۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نئے حکم نامے کے تحت بھارتی فوج، بارڈر سیکیورٹی فورسز، پیراملٹری فورسز اور اسی طرح کے دیگر اداروں کے عہدیدار محکمہ داخلہ کی این او سی کے بغیر زمین حاصل کرسکیں گے۔
مزید پڑھیں:آرٹیکل 370 کی منسوخی، مقبوضہ کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی علاقہ قرار دیے جانے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمین کے حوالے سے 2013 کے قانون میں توسیع ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کرنے کا قانون منظور کرتے ہوئے کشمیر کو تین اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
بھارتی حکومت کے نئے حکم نامے کے مطابق وفاقی قوانین کی توسیع کے بعد مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کو ریاست کے محکمہ داخلہ سے درکار این او سی کی ضرورت نہیں رہے گی۔
بھارت نے رواں برس مئی میں ہی ڈومیسائل کا متنازع قانون منظور کیا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارتی (بی جے پی) حکومت نے غیر مقامی افراد کو کشمیر کے مستقل شہریت حاصل کرنے کا قانون بنایا تھا اور غیر کشمیری بھی باآسانی زمینیں خرید سکیں گے۔
سری نگر کے انسانی حقوق کے رہنما خرم پرویز نے متنازع ڈومیسائل قانون کے حوالے سے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت بھارت کی دیگر ریاستوں کے افراد اور ہزاروں مہاجرین زمیں خریدنے کے اہل ہوجائیں گے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمان آبادی کی اکثریت ہے جو پورے کشمیر کا 68 اعشاریہ 31 فیصد ہے، ہندوؤں کی تعداد 28.43 فیصد جبکہ دیگر کی تعداد 12.5 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کیلئے ڈومیسائل کے نئے قوانین متعارف کرادیے
رپورٹ کے مطابق 18 مئی سے اب تک 25 ہزار سے زائد افراد کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل دیا گیا ہے جو بھارت فوج میں خدمات انجام دینے والے دیگر ریاستوں کے شہری ہیں۔
صحافی ہارون کا کہنا تھا کہ ہماری ثقافتی، سماجی پہچان اور زبان شدید خطرے میں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے 24 جولائی کو ریاست کے 35 مختلف مقامات میں ایک ہزار 205 ایکڑ ریاستی زمین پر صنعتیں لگانے کی منظوری دی ہے۔
بھارت کے متنازع ڈومیسائل قانون کے تحت وہ شخص جو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی جانب سے بنائے گئے وفاقی اکائی میں 15 سال سے رہ رہا ہے یا 7 سال سے پڑھ رہا ہے یا مقبوضہ کشمیر میں بنے تعلیمی ادارے میں 10ویں/12ویں جماعت کے امتحانات دیے ہیں، وہ بھی ڈومیسائل سرٹفکیٹ حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔
اس کے علاوہ وہ افراد جو کمشنر کے پاس مہاجر کے طور پر رجسٹرڈ ہیں یا جو وفاقی حکومت کے عہدیدار کی اولاد ہیں، تمام حاضر سروسز افسر، مرکزی بینک کے حکام، قانونی اداروں کے حکام، مرکزی یونیورسٹیز کے حکام جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں 10سال اپنی خدمات دی ہوں وہ ڈومیسائل سرٹفکیٹ کے اہل ہوں گے۔
یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370 ) کو ختم کردیا اور جموں کشمیر کی تنظیمِ نو سے متعلق نیا قانون منظور کرلیا تھا۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہزاروں افراد کو قید کرکے، ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرکے خطے کو لاک ڈاؤن کردیا تھا اور ساتھ ہی مواصلاتی روابط بھی معطل کردیے تھے۔
بھارتی حکومت نے ایک کروڑ 25 لاکھ افراد پر مشتمل ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو الگ اور لداخ کو الگ اکائی بنایا تھا۔
مزید پڑھیں:احتجاج کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر ڈومیسائل قانون میں ترمیم کردی
بھارت کے 5 اگست کے اقدام میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی نئی وفاقی اکائی کی ایک منتخب قانون ساز اسمبلی ہوگی، جس کی مدت 5 برس ہوگی، اس کی سربراہی بھارت کی جانب سے مقرر کیے گئے لیفٹیننٹ گورنر کریں گے لیکن زیادہ اختیارات نئی دہلی کے پاس موجود ہوں گے۔
دوسری جانب لداخ وفاقی حکومت کے براہ راست زیر انتظام ہوگا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی اور اسے ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلایا جائے گا۔
لداخ کا علاقہ ثقافتی، مذہبی اور قومیت کے لحاظ سے مقبوضہ کشمیر سے مختلف ہے جہاں کی اکثریت ایک طویل عرصے سے اپنی سرزمین کو ایک علیحدہ وفاقی اکائی کے طور پر تسلیم کروانا چاہتی ہے۔
علاوہ ازیں کارگل سمیت لداخ کے 2 اضلاع کو پہلے ہی 'ہل کونسل' کے ذریعے چلایا جارہا تھا، جس کے تحت ان علاقوں کو ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر سے زیادہ خود مختاری حاصل تھی۔