قائمہ کمیٹی کا اینٹی منی لانڈرنگ، کمپنیز ترمیمی بل خصوصی کمیٹی کو بھیجنے پر احتجاج
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اینٹی منی لانڈرنگ اور کمپنیز ترمیمی بل خصوصی قانون ساز کمیٹی کو بھیجنے پر احتجاج کیا۔
فیض اللہ کاموکا کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔
اجلاس میں لمیٹڈ لائیبلٹی پارٹنرشپ ترمیمی بل، کمپنیز ترمیمی بل اور اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل 2020 پیش کیے گئے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے مختصر نوٹس پر کمیٹی اجلاس بلانے پر احتجاج کیا۔
کمیٹی رکن علی پرویز ملک نے کہا کہ اتنے مختصر نوٹس پر کمیٹی اجلاس نہیں بلایا جاسکتا۔
سید نوید قمر نے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے، مجھے کمیٹی کا نوٹس تک نہیں ملا اور سنی سنائی اطلاعات پر کمیٹی اجلاس میں آیا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ پر سزا میں اضافے کا بل قائمہ کمیٹی نے منظور کرلیا
انہوں نے کہا کہ اس طرح کمیٹی کا اجلاس بلانے سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، لگتا ہے کہ کوئی چیز بلڈوز ہونے جارہی ہے۔
کمیٹی نے تینوں بلز خصوصی پارلیمانی قانون ساز کمیٹی کو بھیج دیے جس پراراکین نے احتجاج کیا۔
اراکین کا کہنا تھا کہ اگر قوانین متعلقہ کمیٹی کے بجائے خصوصی کمیٹی نے منظور کرنے ہیں تو تمام پارلیمانی کمیٹیوں کو بند کردیں۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس اسمبلی کے 13 بلز خصوصی قانون ساز کمیٹی کو بھیج دیے گئے، یہ پارلیمنٹ کی تاریخ کے لیے سیاہ ترین دن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اس کے ذمہ دار ہیں، پارلیمانی کمیٹیاں غیر فعال ہوچکی ہیں اور پی ٹی آئی حکومت اپنے مشیر خزانہ کو پارلیمنٹ میں نہیں لا سکتی۔
حکومتی رکن فہیم خان نے کہا کہ عبدالحفیظ شیخ کو اجلاس میں بلا بلا کر تھک گئے، اب ان کے رویے کے خلاف واک آؤٹ کریں گے۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ حکومت کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے، پاکستان گرے لسٹ میں ہے مگر حکومت نے آخری مہینے میں یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیے۔
رکن عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے، یہ بلز پاکستان کے مستقبل کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
چیئرمین کمیٹی فیض اللہ کاموکا نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت شامل ہے، یہ کمیٹی اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے بنائی گئی ہے، اس اقدام پر میں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوانین متعلقہ کمیٹی سے منظور کرائے جائیں، یہ جمہوریت نہیں ہے، آئندہ اجلاس میں مشیر خزانہ شرکت کریں گے تو ہی اجلاس ہوگا، اگر وہ اجلاس میں نہیں آئیں گے تو کمیٹی چھوڑ دوں گا۔
اراکین نے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی غیر حاضری پر آئندہ واک آؤٹ کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: صدر عارف علوی نے 'کمپنیز ایکٹ' میں ترامیم کی منظوری دے دی
ڈائریکٹر جنرل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ لبنیٰ فاروق ملک نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 40 نکاتی ایکشن پلان دیا ہے، پاکستان ان سفارشات میں سے 10 پر عمل درآمد کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں جرائم کہ سزائیں بڑھائی گئیں، نان بینکنگ سروسز کی سپروائزری بڑھائی جارہی ہے، تاہم دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 6 اگست کو رپورٹ ایف اے ٹی ایف کو بھجوائے گا، اینٹی منی لانڈرنگ کی رپورٹ ایشیا پیسیفک گروپ کو ستمبر میں بھجوائی جائے گی۔
لبنیٰ فاروق نے کہا کہ اگست میں قانون سازی نہ ہوئی تو تاخیر ہوسکتی ہے، قانون کی شدت کو بڑھایا جارہا ہے، جبکہ جرائم کی سزائیں بڑھائی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوانین کا دائرہ کار بڑھایا جارہا ہے، سی ڈی این ایس کا نظام مربوط کیا جارہا ہے جبکہ وکلا، جیولرز اور اکاؤنٹنٹس کو مخصوص کیا جارہا ہے۔