گوشت کی برآمدات میں اضافہ مقامی قیمت پر اثر انداز
پاکستان کی گوشت اور گوشت سے بنی مصنوعات کی برآمدات غیر ملکی خریداروں کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے 18-2017 میں کم ہوگئی تھی تاہم 20-2019 میں پہلی بار اس میں 30 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا اور اس کے علاوہ پہلی مرتبہ برآمدات کے حجم نے بھی 80 ہزار ٹن کی سطح عبور کی۔
دنیا سے کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد پاکستان اپنی غذائی برآمدات میں اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
غیر ضروری اشیاء کی طلب کے برعکس گوشت کی طلب مستحکم ہے، اس تناظر میں گوشت کی برآمدات میں 30 ملین ڈالر تک کا اضافہ حوصلہ افزا ہے چونکہ یہ اضافہ بڑی ترسیل کی وجہ سے ہوا ہے لہذا حکومت اور برآمد کنندگان کو برآمدات کی قیمت میں اضافے کے لیے راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔
واضح رہے کہ کسی خاص اشیائے خور ونوش کی بڑی مقدار میں برآمدات سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا غیر دانشمندانہ ہے کیونکہ اس سے ملکی منڈیوں میں اس چیز کی قلت پیدا ہوتی ہے اور اس کی مقامی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: یومیہ کتنا گوشت کھایا جا سکتا ہے؟
گزشتہ دو سالوں میں گائے کے گوشت اور مٹن کی مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ مہنگائی اور پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت کے عوامل کے ساتھ برآمدات بھی ہیں۔
پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق ہڈیوں کے ساتھ گائے کے گوشت کی قومی اوسط قیمت جون 2018 میں 367 روپے فی کلو سے بڑھ کر جون 2019 میں 412 روپے اور جون 2020 میں 451 روپے ہوگئی۔
مٹن کی فی کلو قیمت بھی جون 2018 میں 773 روپے سے بڑھ کر جون 2019 میں 860 روپے اور پھر جون 2020 میں 945 روپے ہوگئی۔
ادارہ شماریات نے واضح کیا کہ یہ قومی اوسط قیمتیں ہڈیوں والے 'اوسط معیار' کے مٹن اور گائے کے گوشت پر لاگو ہوتی ہیں اور یہ اعلیٰ معیار والے گوشت کی قیمتیں نہیں ہیں اور اس میں بچھڑے یا چھوٹے جانور کے گوشت کی قیمتیں یا گائے کے گوشت (بوڑھے گائے اور بیلوں کے گوشت) کی ہڈیوں کے بغیر قیمتیں رپورٹ نہیں کی گئی ہیں۔
کراچی کی بیشتر بازاروں میں ہڈیوں کے بغیر گائے کے گوشت کی قیمت اس وقت 550 سے 600 روپے کلو اور بچھیا کا گوشت 650 سے 700 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے جبکہ مٹن ایک ہزار 100 روپے سے ایک ہزار 200 روپے فی کلو میں فروخت ہورہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: اسلام آباد میں 15دن کیلئے دفعہ 144 نافذ
پی بی ایس کی جانب سے قومی اوسط قیمتوں اور کراچی کی مارکیٹوں میں قیمتوں میں وسیع فرق سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ گائے کے گوشت اور مٹن کی قیمتوں میں گزشتہ دو سالوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے چونکہ ان دو سالوں کے دوران گوشت کی برآمدات کافی حد تک بڑھی ہے لہٰذا پالیسی سازوں کے لیے یہ تجویز دی گئی ہے کہ جائزہ لیں کہ گوشت کی اعلیٰ برآمدی مقدار یا اس جیسی کسی بھی دوسری اشیائے خور ونوش کی برآمدات میں اضافے سے مقامی قیمتوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔
تاہم اس مقصد کے لیے شروع کیے جانے والے کسی بھی مطالعے میں نام نہاد فہرستوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے جو کمشنرز کے دفاتر سے جاری کی جاتی ہیں۔ قیمتوں کی یہ فہرستیں اب صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو تفریح فراہم کرتی ہیں۔
اس مطالعے کے لیے برآمداتی مقدار اور گوشت کی مقامی قیمتوں کے درمیان رشتہ، یا کسی بھی دوسری اشیائے خور ونوش کے درمیان روابط تلاش کرنا ہے تو اسے ایماندار اور قابل پیشہ ور افراد کے ذریعہ انجام دینا ضروری ہے۔
اس مقصد کے لیے لمز یا آئی بی اے جیسی معروف یونیورسٹیوں کے سروے گروپس کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ جاننے کے لیے کہ برآمدات کی بڑی مقدار سے گائے کے گوشت اور مٹن جیسے کھانے پینے کی اشیاء کی مقامی قیمتوں کو کس حد تک بڑھاوا دیا ہے، اقتصادی تھنک ٹینکس اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے مدد لی جاسکتی ہے۔
بہت ساری وجوہات کی بنیاد پر اس طرح کی مشق کرنا بہت زیادہ ضروری ہوگیا ہے تاہم ان میں سے کچھ بہت واضح ہیں۔
پہلا معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی غذائی تحفظ کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور یہ غذائی تحفظ صرف اشیائے خور ونوش کی دستیابی کے بارے میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ کم قیمت پر ان کی دستیابی کے بارے میں بھی ہیں۔
مزید پڑھیں: ایک غریب سے پیسے لیکر دوسرے غریب کو دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ وبائی بیماری کے بعد کی دنیا میں ممالک غیر ضروری درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کھانے کی اشیا کی درآمدات کی مانگ برقرار ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے کھانے پینے کے برآمد کنندگان کو اس کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔
اگر وہ اس بڑے پیمانے پر مانگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف برآمدات کے حجم کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مزید فی یونٹ برآمدات کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے ویلیو ایڈڈ طریقہ کار کو نہیں اپناتے ہیں تو یہ ہمارے اپنے فوڈ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے تباہ کن ہوگا۔
تیسرا معاملہ یہاں یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی مجموعی برآمدی آمدنی کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس طرح اس وقت کی حکومت میں بے ایمان عناصر کو اس بات کا لالچ آئے گا کہ وہ فوڈ سیکیورٹی کے امور کو پیچیدہ بنانے اور کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے پر بھی اس کی برآمدات کو بڑھنے دیں۔
گزشتہ دو سالوں میں گندم اور چینی کے شدید بحران اس کی مثالیں ہیں کہ سستی قیمتوں پر انتہائی ضروری اشیائے خور ونوش کی دستیابی کو بھی یقینی بنانا کتنا مشکل ہے۔
اس طرح کے بحرانوں کو سیاسی طور پر ہینڈل کرنے کی وجہ سے یہ اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
پیچیدہ بحرانوں کی سیاسی ہینڈلنگ سے متعدد سنگین نقصانات ہوتے ہیں تاہم ان میں سب سے واضح غیر پیشہ ور میڈیا کوریج مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے۔
ان چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ غذائی برآمدات اور غذائی تحفظ کے توازن کے معاملے کو مکمل طور پر پیشہ ورانہ انداز میں سیاسی ہینڈلنگ سے پاک رکھیں اور ان نتائج کو حاصل کرنے پر توجہ دی جائے جس سے معاشی منتظمین معیشت کو زیادہ مؤثر انداز میں چلانے میں مدد کرسکیں۔