پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے ’تحفظ اسلام‘ قانون پر تنقید
اسلام آباد: وفاقی وزیر کے علاوہ معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام بل 2020 پر تنقید کی گئی اور خبردار کیا گیا کہ اس قسم کے رجحانات شدت پسندی کو ہوا دیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’پارلیمان خصوصاً پنجاب اسمبلی میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ ہر رکن روزانہ ایک نئی تحریک لے کر آتا ہے اور بتایا جاتا ہے اگر یہ نہ ہوا تو اسلام خطرے میں ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خطرناک رویہ ہے اس سے ہم فرقہ وارانہ اور مذہبی شدت پسندی کے گرداب میں دھنستے جائیں گے‘۔
ایک اور ٹوئٹ کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان میں اسلام کو ٹک ٹاک سے خطرہ ہے نہ ہی کتابوں سے، بلکہ ہمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم اور شدت پسندی سے خطرہ ہے‘۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ‘محلوں میں رہنے والے حضرات احتیاط کریں اور ایسی آگ کو ہوا نہ دیں کہ خود جل جائیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے کی قرار داد منظور
ادھر نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک نے ایک بیان میں کہا کہ نیا قانون فرقہ واریت کو ہوا دے گا اور ملک کے سب سے بڑے صوبے جہاں معاشرے کے پسماندہ طبقے کے خلاف مذہبی نفرت انگیزی کی تاریخ ہے وہاں اقلیتوں کے خلاف نفرت کو بھڑکا دے گا۔
ایوب ملک نے کہا کہ ملک نے پہلے ہی فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی انحطاط پذیر پالیسیز کی بدولت سخت مشکلات کا سامنا کیا ہے جس کی وجہ سے 'معاشرے کے قدامت پسند عناصر کو جناح کے پاکستان کے وژن کو بری طرح خراب کرنے کا حوصلہ ملا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب اس نئے قانون سے جناح کے پاکستان کا تصور مکمل تباہی کی جانب دھکیل دیا گیا ہے اور اقلیتوں اور معاشرے کے دیگر طبقات کے لیے مزید نفرت کا راستہ کھل گیا ہے‘۔
مزید پڑھیں: سینیٹ میں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبین لکھنے کی قرار داد منظور
دوسری جانب تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے آغا سید حامد علی شاہ موسووی نے ایک بیان میں اس بل کو قرآن و سنت کے منافی اور آئین پر حملہ قرار دیا۔
انہوں نے جمعہ کے روز ملک بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے کا بھی اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مذہب اور وطن عزیزی کی بنیادوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے نہیں شرمائیں گے، اس بل کو فوری واپس لیا جانا چاہیے‘۔
علاوہ ازیں خواتین کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیوڈی ایف) نے بھی اس بل پر تحفظات کا اظہا کیا اور انہوں نے’تحفظ بنیاد اسلام بل کو ریاستی سینسر شپ میں اضافے کی واضح کوشش‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی کی توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی سفارش
خیال رہے کہ 22 جولائی کو منظور ہونے والے اس قانون کے تحت کسی بھی پیغمبر یا چاروں الہامی کتب میں سے کسی کی بھی، حضرت محمدﷺ کے ساتھیوں اور اہلِ خانہ کی ’بے ادبی‘ کی صورت میں اور دہشت گردوں کی اعانت اور تعریف کرنے، کسی بھی کتاب میں فرقہ واریت کو فروغ دینے پر کم از کم 5 سال قید کی سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
اس بل کے تحت جہاں بھی آنحضرت ﷺ کا نام لکھا جائے وہاں ’خاتم النبیین‘ تحریر کرنے کو لازم کیا گیا ہے۔