حکومت، نیب کے اختیارات کم کرنے کے لیے متحرک
اسلام آباد: حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) (دوسری ترمیم) آرڈیننس 2019 کے خاتمے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کے آرڈیننس 1999 میں ترمیم کرنے لے لیے بھی بل کا ایک نیا مسودہ تیار کیا ہے جسے گزشتہ سال دسمبر میں صدر عارف علوی نے پیش کیا تھا جس کا مقصد بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور تاجروں کے خلاف کارروائی سے متعلق نیب کے اختیارات میں کمی لانا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی 120 دن کی آئینی مدت کی تکمیل پر 26 اپریل کو نیب آرڈیننس (دوسری ترمیم) 2019 کے ختم ہونے کے بعد حکومت نے نیا مسودہ تیار کرنے اور اس پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس آرڈیننس کو متعدد ناقدین نے تاجروں، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے لیے 'تمام این آر اوز کی ماں' بتایا تھا یہاں تک کہ اپوزیشن نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی تھی لیکن بعد میں اس پر بحث کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ بیٹھنے پر اتفاق کیا تھا۔
مزید پڑھیں: نیب قوانین میں ترمیم کا معاملہ: پارلیمانی کمیٹی بنانے کی منظوری
اپوزیشن جماعتوں نے بھی شروع میں ہی آرڈیننس جاری کرنے کے حکومتی عمل پر آواز اٹھائی تھی اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر الزام لگایا تھا کہ اس نے سب کے احتساب کے نعرے پر ایک اور یو ٹرن لیا ہے مگر بعد ازاں اپوزیشن نے نہ صرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا بلکہ چند سیاست دانوں نے بھی آرڈیننس کے تحت ریلیف حاصل کیا تھا۔
نیب آرڈیننس 2019 بنیادی طور پر تاجروں کو احتساب کے دائرے میں 'وفاقی یا صوبائی ٹیکسیشن، لیویز یا امپورٹس' سے متعلق مقدمات کو چھوڑتے ہوئے ریلیف کی فراہمی کے لیے متعارف کرایا گیا تھا اور موجودہ مقدمات کو احتساب عدالتوں سے لے کر ایسے جرائم کو دیکھنے والی فوجداری عدالتوں میں منتقل کیا تھا۔
اس آرڈیننس میں نہ صرف کاروباری طبقہ بلکہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا بھی ایک حد تک خیال رکھا گیا تھا کیونکہ اس نے 'اختیارات کے ناجائز استعمال' اور 'نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات' کی اصطلاحات کی وضاحت کی تھی۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے زیر التوا قانون سازی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے حال ہی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی تشکیل کردہ 24 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے نیا مسودہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ حکومت نے عید الاضحی کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات کا فیصلہ 30 دن میں ممکن نہیں، چیئرمین نیب
اس مسودے میں زیادہ تر وہی الفاظ ہیں جو گزشتہ آرڈیننس میں تھے تاہم اس میں نئی شقیں بھی موجود ہیں جن میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ نیب کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کا تقرر توسیع پذیر ہونا چاہیے۔
مجوزہ مسودہ جس کی ایک کاپی ڈان کے پاس دستیاب ہے، میں کہا گیا ہے کہ 'اس آرڈیننس کی دفعات کا اطلاق درج ذیل افراد اور لین دین پر نہیں ہوگا: وفاقی یا صوبائی ٹیکس، لیویز یا امپورٹس سے متعلق معاملات'۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے آغاز کے بعد 'تمام زیر التواء انکوائریز اور تفتیشوں کو متعلقہ حکام یا محکموں میں منتقل کیا جائے گا جو ٹیکس، لیویز یا امپورٹس میں اضافے کے متعلقہ قوانین کو دیکھتے ہیں اور مقدمے کی سماعت متعلقہ احتساب عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں کی جائے گی جو ٹیکس، لیویز یا امپورٹس سے متعلق معاملات سے متعلقہ قوانین کے تحت جرائم کو دیکھتے ہیں'۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 'کسی بھی سرکاری منصوبے یا اسکیم میں ضابطے کی خرابیوں کے سلسلے میں اس آرڈیننس کے تحت کسی بھی عوامی عہدے کے حامل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی جب تک یہ ظاہر نہ کیا جائے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے، اس کے لواحقین یا دیگر کو فائدہ حاصل ہوا ہے، اور اس طرح کے فوائد کے حصول کی تصدیق کرنے کے شواہد موجود ہیں'۔