• KHI: Sunny 24.2°C
  • LHR: Sunny 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 16.5°C
  • KHI: Sunny 24.2°C
  • LHR: Sunny 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 16.5°C

کراچی روشن کرنے والا

شائع August 2, 2013 اپ ڈیٹ May 15, 2015

کراچی میونسپلٹی کے پہلے صدر (1911-1922) اور شہر میں پہلی بار بجلی لانے والے سیٹھ ہرچند رائے وشن داس کا سرکٹا مجسّمہ -- مہوٹہ پیلس، کراچی -- فوٹو -- اختر بلوچ'روشنیوں کے شہر' کی اصطلاح کراچی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ گذشتہ 30 سالوں سے ہر حکمراں جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ روشنیوں کے شہر کی رونقیں ضرور بحال کریں گے۔ مگر رونقیں ہیں کہ بحال ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔سیاسی جماعتیں جب پہلے یہ دعویٰ کرتی تھیں تو غالباً ان کی مراد امن وامان کی بحالی ہوتی تھی۔ لیکن گزشتہ 10 سال سے اس میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی شامل ہو گیا ہے۔تقسیم سے قبل کراچی کا شمار پس ماندہ شہروں میں ہوتا تھا۔ روشنیوں کے شہر میں روشنی کے لیے مٹی کے تیل کے لیمپ اور گیس بتیاں جلائی جاتیں تھیں۔ شہر حقیقتاً روشنی کا شہر اس وقت بنا جب ہرچند رائے وشن داس 1911 تا 1921 کے دوران کراچی میونسپلٹی کے صدر بنے۔اراکین بلدیات کراچی رسالے کی 1980 کی اشاعت میں ہرچند رائے وشنداس کے حوالے سے تحریر ہے کہ وہ 1911 میں کراچی میونسپلٹی کے پہلے مقامی صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے بہت کام کیے۔ جن میں بجلی کمپنی کا قیام سب سے اہم تھا۔بجلی کی آمد نے کراچی کو جدید شہر بنا دیا۔ رسالے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کا تعلق بمبئی کے ایک ہندو خاندان سے تھا (جب کہ دیگر حوالوں سے یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے)۔ وہ سندھ کے مقامی باشندے تھے اور ان کا جنم کوٹری شہر کے قریب ایک گاؤں میں ہوا تھا۔ وہ نہ صرف ایک فعال سماجی رہنما تھے بلکہ ایک نظریاتی سیاسی کارکن بھی تھے۔ مہاتما گاندھی اور دیگر کے ساتھ ایک یادگار تصویر -- فوٹو -- خادم حسین سومرو --.پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب 'اُھی ڈینھن اُھی شینھن' (وہ دن وہ لوگ) میں لکھتے ہیں کہ سیٹھ ہر چند رائے اور ان کے دوست غلام محمد خان بھرگڑی وہ نامور سندھی شہری تھے جنھوں نے اس وقت کے گورے (انگریز افسران) اور نوکر شاہی کے سامنے یہ نعرہ بلند کیا کہ سندھ کی شہریت ایک شان دار چیز ہے نہ کہ رسوائی کا سبب۔علی محمد راشدی مزید لکھتے ہیں کہ؛"ان کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب وڈیرے 'صاحب لوگوں'‘ (انگریز افسران) کے پاس سلام (حاضری) کے لیے پیش ہوتے تھے تو صاحب کا پٹے والا ان کے جوتے اتروا کر انھیں ننگے پیر اندر لے جاتا تھا۔ کمشنر صاحب لیوکس، ان کی تذلیل کرنے کے لیے ان سے پوچھتے تھے؛تم بدمعاش ہو یا نہیں؟وڈیرے جواب میں کہتے تھے، "جی قبلہ! باپ دادا سے لے کر سرکار کے بدمعاش ہیں۔"اندیشہ یہ ہوتا تھا کہ انکار کرنے سے مبادا صاحب ناراض ہو جائے اور سچ مچ ان کے خلاف کاروائی نہ کر بیٹھے۔سیٹھ ہرچند رائے نے کراچی میونسپلٹی کے صدر کی حیثیت سے اپنے دور میں کراچی میں بے حد ترقیاتی کام کروائے۔ 1846 سے لے کر 1884 تک کراچی میونسپلٹی میں افسروں اور اہل کاروں کا زور رہتا تھا اور اراکین بھی ایسے نامزد ہو کر آتے تھے جن پر اہل کاروں کا زور چلتا تھا۔یہ اراکین ہمیشہ افسروں کے کہنے پر عمل کرتے تھے۔ 1885 سے کراچی میونسپلٹی میں نامزد اراکین کے علاوہ منتخب اراکین بھی آنے لگے۔ ہرچند رائے کی ان تھک کاوشوں سے کراچی میونسپلٹی ایک عوامی ادارہ بنا۔سندھ اور خصوصاً کراچی کی تاریخ کے حوالے سے مورخ گل حسن کلمتی اپنی سندھی کتاب "کراچی جا لافانی کردار" (کراچی کے لافانی کردار) میں لکھتے ہیں کہ ہرچند رائے نے شہر کراچی میں مختلف برادریوں کے زیر انتظام کام کرنے والے سماجی اداروں کی بھی دل کھول کر مدد کی۔ ان اداروں کو میونسپلٹی کی جانب سے مفت پلاٹ دیے گئے تاکہ وہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں.ان اداروں میں سنت دھرم منڈل، کنیا شالا، ڈوسا کنیا پاٹ شالا، خواجہ اسماعیلی کاؤنسل، مشن گرلزاسکول لوھانا واڈیامنڈل، لوھانا انڈسٹریل و ٹیکنیکل انسٹیٹیو ٹ اور سندھ مدرسے کا ادارہ شامل تھا۔کراچی میں 1896 سے 1897 کے عرصے میں جب طاعون (Plague) کی وبا پھیلی تو اس وقت ہرچند راۓ میونسپلٹی میں کاؤنسلر تھے۔ وبا سے نپٹنے کیلئے انھوں نے ایک عارضی اسپتال قائم کیا جس کے انچارج ہرچند راۓ اور ان کے کزن تھے۔ہرچند رائے نے پوری ٹیم کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی۔ اس دوران خالی گھر وں میں کچھ افراد نے لوٹ مار کی تو فوج اور پولیس کے ساتھ مل کر ہر چند راۓ نے ان گھروں کی حفاظت کے لیے نوجوانوں کے جتھے مقرّر کئے۔کراچی شہر میں ہر چند رائے کے دور سے قبل سڑکیں کچی ہوتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہر میں تارکول (ڈامبر) سے بنائی جانے والی سڑکیں بھی انھوں نے متعارف کروائیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بھی۔سندھی ادب اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اصفر آزاد نے ہمیں بتایا کہ ہر چند رائے کی کراچی کے لیے خدمات کو ایک بلاگ میں تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے لیاری ندی کا رُخ تبدیل کر کے کراچی والوں کو ایک بڑی مصیبت سے چھٹکارا دلایا۔موتی رام سترام داس اس بارے میں اپنی کتاب 'رتن جوت' کے صفحہ نمبر 101 پر لکھتے ہیں کہ؛"لیاری ندی شہر کے درمیان میں بہتی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ کے سبب شہریوں کے لیے مصیبت اور آزار کا سبب بنتی تھی۔ پانی اترنے کے بعد مچھروں کی بہتات ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ملیریا کا بخار پھیل جاتا تھا۔اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے سیٹھ ہر چند رائے نے انجنیئروں سے مشورے کے بعد ایک کارگر منصوبہ تیار کروایا۔ لیاری ندی گاندھی باغ (کراچی چڑیا گھر) کے قریب دھوبی گھاٹ پر بند باندھا گیا اور پانی کے بہاؤ کا رُخ تبدیل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مزید زمین میسر ہوئی اور اور ایک اور کوارٹر وجود میں آیا۔لوگوں کی رائے تھی کہ اس کوارٹر کا نام ہر چند رائے کے نام سے منسوب کیا جائے لیکن سیٹھ صاحب کا واضح موقف تھا کہ جب تک میونسپلٹی کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں وہ اس قسم کا کوئی فائدہ نہیں لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چند رائے اپنے اصولوں کی کس حد تک پاس داری کرتے تھے۔"ہر چند رائے ایک آزاد خیال اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کے دوران ہمیشہ اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔محمد عثمان دموہی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے کے صفحہ نمبر 514 پر لکھتے ہیں کہ؛"جب سندھ کو بمبئی پزیڈینسی سے علیحدہ کرنے کی تحریک چلائی گئی تو کچھ ہندو اس تحریک کے سخت خلاف تھے۔ مگر آپ نے اپنی قوم کی مخالفت کے باوجود اس تحریک میں دل و جان سے حصہ لیاتھا۔"جب کراچی میں کٹر ہندؤوں نے شدھی تحریک چلائی تو آپ نے کھل کر اس گھناؤنی تحریک کی مخالفت کی اور اس کی سرکوبی کے لیے میدان میں اتر آئے (شدھی تحریک کے بارے میں بات پھر کبھی کریں گے)آپ سائمن کمشن کے بائیکاٹ میں بھی شریک رہے۔ غرض کہ آپ بے حد غیر متعصب اور بے لوث سماجی رہنما تھے۔سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیوں ہوا؟ اس بارے میں معروف مورخ اور محقق ڈاکٹر مبارک علی خان نے ہمیں بتایا کہ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ جس کے قائد جناح تھے نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔ لیکن ایک مسلم لیگ سر محمد شفیع کی قیادت میں پنجاب میں بھی تھی، انھوں نے سائمن کمیشن کو خوش آمدید کیا تھا۔بہرحال کانگریس اور جناح صاحب کا موقف یہ تھا کہ چوں کہ کمیشن میں کوئی بھی ہندوستانی شامل نہیں اس لیے یہ کمیشن ناقابل قبول ہے۔سائمن کمیشن کی آئینی منظوری کے لیے انڈین قانون ساز اسمبلی کے 1 فروری کو ہونے والے اجلاس میں وائسرائے نے تقریر کی۔ ہرچند رائے اس وقت خراب صحت کی بناء پر کراچی میں تھے۔ اسمبلی میں کمیشن کے حوالے سے ووٹنگ ہونی تھی۔ ہرچند رائے نے اپنی خراب صحت کے باوجود اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔موتی رام سترادم داس اپنی کتاب 'رتن جوت' میں لکھتے ہیں؛"14 فروری کو وہ بہ ذریعہ ٹرین لاہور میل کے ذریعے کراچی سے روانہ ہوئے۔ ٹرین جب سماسٹہ اسٹیشن پہنچی تو شدید سردی کے سبب ان کی حالت بگڑنے لگی۔ وہ خون کی اُلٹیاں کرنے لگے۔ انھیں علاج کے لیے کہا گیا۔ لیکن وہ دہلی جانے کے لیے بضد تھے۔16 فروری کی صبح وہ دہلی پہنچے ان کی حالت بہت خراب تھی۔ انھیں ٹرین سے کرسی پر بٹھا کر موٹر میں سوار کرایا گیا اور اسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ بضد تھے کہ اسمبلی جا کر ووٹ دیں گے۔ اسمبلی کی جانب آتے ہوئے ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ بلا آخر وہ اسمبلی کے گیٹ پر جان کی بازی ہار گئے۔ یہ تھی ان کی نظریاتی وابستگی اور سیاسی خلوص کی انتہا۔ ان کی آخری رسوم شان و شوکت سے ادا کی گئیں۔آخری رسومات میں پنڈت مدن موھن مالویہ، پنڈت موتی لال نہرو، وٹھل بائی پٹیل سمیت بے شمار نامور شخصیات شریک ہوئیں۔ ان کا اگنی سنسکار جمنا ندی کے کنارے پر کیا گیا"۔ہرچند رائے نام و نمود کے سخت خلاف تھے۔ ان کے دیہانت کے بعد ان کی یاد میں 28فروری 1928 کو خالق دینا ہال میں ایک عوامی جلسہ منقد کیا گیا۔ موتی رام سترام داس کے مطابق جلسے میں فیصلہ کیا گیا کہ مرحوم کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی ترتیب دی گئی۔6 سال بعد 16 فروری 1934 کو کراچی میونسپلٹی کمپاؤنڈمیں ان کے مجسمے کی تقریب رونمائی کی گئی۔ مجسمہ بنانے پر 16 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ یہ رقم کراچی کے شہریوں سے حاصل کی گئی تھی۔ یہ مجسمہ مسٹر ٹام نے بنایا تھا۔اراکینِ بلدیات کراچی رسالے کے مدیر مناظر صدیقی اداریئے میں لکھتے ہیں؛"آنجہانی ہرچند رائے وشن داس کے کراچی پر بڑے احسانات ہیں۔ ان کے کردار اور خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ان کا ایک مجسمہ نصب تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہٹا دیا گیا".مجسمہ ہٹانے تک تو خیر لیکن ان کے نام سے موسوم سڑک کا نام تبدیل کر کے اسے ایک دوسرے سربراہِ بلدیہ سے موسوم کر دینے کا جواز سمجھ میں نہیں آیا.اگر صرف جناب صدیق وہاب کی خدمت کا اعتراف کرنا مقصود تھا تو ان کے نام سے اسی طرح کسی نئی سڑک کو موسوم کیا جا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جناب صدیق وہاب اور آنجہانی ہرچند رائے وشن داس دونوں ہی بلدیہ کراچی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ محسن کراچی سیٹھ ہرچند راۓ کا یادگاری مجسّمہ (کل اور آج) -- فوٹو بشکریہ -- اختر بلوچ اور خادم حسین سومروہمیں پتہ چلا کہ ہرچند رائے کا یہ مجسمہ میونسپلٹی کے گوداموں میں موجود ہے۔ ہم نے تمام گودام کھنگال ڈالے مگر اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ بعد میں ہر چند رائے پر لکھی گئی کتاب کے مصنف جناب خادم حسین سومرو نے ہمیں بتایا کہ یہ مجسمہ مہوٹہ پیلس میں موجود ہے۔ جب وہاں پہنچ کر مجسمہ دیکھا تو وہ سر سے محروم تھا۔ یقیناً یہ سر کسی 'بت شکن' نے قلم کیا ہوگا۔  اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان      کے کونسل ممبر کی  حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (19) بند ہیں

danish Aug 02, 2013 02:21pm
wa sain akhtar baloch sb. tawa to kamal kare chadio aaye... wa je wa
Qazi Mehran Sindhi Aug 02, 2013 02:31pm
Akhtar Baloch Saahab great story you mentioned the history that we don't know.... Seth Harchand Rai Vishandas was true social man..and municipality head...i don't understand why change the name of the Harchand Rai's Name by Pakistani government.
Shahanz Shoro Aug 02, 2013 02:42pm
Another brilliant research from Akhtar Baloch with a brilliant touch of literary taste....And my comments about the article is, heran hon ro'on ke peetoon jigar ko men!
Bilal Zafar Aug 02, 2013 03:20pm
Very informative column specially for karachi citizens ,best wishes & prayers for Sir Akhtar balouch .
ماجد سمون Aug 02, 2013 05:41pm
پيارا اختر هرچند راءِ جو پروفائيل لکي اوهان اسان جي ڄاڻ ۾ اضافو ڪيو آهي، تمام بهترين پسند آيو، هرچند راءِ جنهن ڪراچي کي روشنين جو شهر بڻايو ان جي مجسمي کي ڊاهي ساڻس زيادتي ڪئي وئي ۽ ان جي شخصيت سان منسوب ڪيل رستي جو نالو به بدلايو ويو، هر چند راءِ سان ائين ڪرڻ سمجهه کان ٻاهر آهي، خبر ناهي ان ڪهڙو گناهه ڪيو..؟اڄ انهن ماڻهن جو تصويرون لڳايون ويون آهن جن روشنين جي شهر کر اونداهين ۾ تبديل ڪري ڇڏيو آهي. اڄ به ان رستي جو نالو هرچند سان منسوب ڪري سگهجي ٿو جنهن تي ڪنهن کي اعتراض نه ڪرڻ گهجي، پر ليکڪ جي هڪ ڳالهه تي اعتراض آهي ته هن هڪ هنڌ سنڌ ۽ ڪراچي شهر کي ڌار ڌار ڪري لکيو آهي
tayyab jajjvi Aug 02, 2013 06:20pm
wa kia bat hai is blog ki ..ye blog un k ley hai jo karachi ko mega city banane ka dawa krty hai ..aur jahan tak bat hai ..saar qalam aur road ka name tabdil krne ka ....partition kay bad jo hukmran bane uno nay har hal may kosis ki kay maqami logon ki har shanakat ko katm krdia jae ...taky wo un ki banai hoi history ko qabol kren lakn history tabdil nahe hoti ..........
ابوبکربلوچ Aug 02, 2013 09:27pm
نام ورمحقق اختربلوچ کاتازہ علمی اورتحقیقی مضمون پڑھ کراپنے محسنوں سے ناشناسائی کاآج ہرباشعورانسان کودردہوگا،کیوں کہ ہم نےآج دندناتےپھرنےوالےچورڈاکوؤں کواپناہیروبنالیاہےتاہم تاریخ کےاصل ہیروزکواس طرح فراموش کردیاہےجیسےیہ کبھی تاریخ میں تھےہی نہیں ۔ مگراس حوالےسےہمارامعاشرہ اپنےگناہوں کی جوابدہی تودےگاتاہم غلطی کے اصل مرتکب ہمارے نام نہاد ادارے ہورہے ہیں کیونکہ ایک شخص کی غلطی ایک شخص کی غلطی ہوتی ہےجبکہ اداروں اوراقوام کی معمولی غلطیاں بھی قوموں کا بیڑاغرق کردیتی ہیں۔ محترم ہرچندرائےنےجس دورمیں محکوم اقوام کی آزادی کےلیےتحریک چلائی تھی اس دورمیں کم ازکم کچھ اچھےلوگ تھےمگرآج ہمارے اداروں میں فرعون یافراعنہ نہیں توکم ازکم ان کی باقیات ضرورموجودہیں۔ ہرچندرائےاورموجودہ بدمعاشوں میں تھوڑافرق ہے۔۔۔ ہرچندرائےبضمیرانسان تھے۔۔۔۔۔۔ اب صرف بےضمیروں کاسمندر ہے۔۔۔۔۔ انہوں نےکراچی کوروشنیوں کاشہربنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اندھیرنگری چوپٹ راج ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان کےدورمیں سڑکوں پرتارکول بچھائی گئی ۔۔۔۔ اب لوگوں کےچہروں پرکالک لگی ہے۔۔۔۔۔۔ انہوں نےتحریک جناح،نہرو،گاندھی اورآزادکےساتھ شروع کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ آج صرف غلام ہیں۔۔ ایک اہم بات جس پرمضمون نگارسے شدید اختلاف ہے،وہ یہ کہ شری مان ہری چندکےمجسمہ کی توہین یقیناً کسی ِِِِِِِِِِ،،،،،بت شکن ،،،، نےنہیں کی ہوگی کیوں اس کےلئےفکراورنظریہ کی ضرورت ہوتی ہےاوریہ ہمارے معاشرےمیں ( سوائےنظریہ ضرورت )کے ناپید نظرآتی۔۔
khobaib hayat Aug 03, 2013 02:55am
aik jagah tum nay likha hay khowajha ismaeli council zra apnay notes myn dekho yehi nam hay ya khoja ............,ya typing mistake.aik jagah wathal bai patel zra namon aor tarekh myn ehtiat brat lia kro werna hm log tarekh tuo terha krnay ke mahir hyn hi,mazmoon bohot aala hay uss pr do kya derh rai bhi nhi ho sakti
khobaib hayat Aug 03, 2013 03:36am
akhter,yebat kisi bhi ta'asub say bala hay ke mujha karachi bohot passand hay khaas taur par taqseem say pehlay ka karachi. iss sheher pr bila tafreeq e rang o millat bohot say logon ke ehsanat hyn jin myn hindo,angrez,parsi, kachhi memon aor gowanese sab shamil hyn,meray khayal myn siasat se hut kr aik aesi fa'aal (jandar )tehreek chlai jai jo karachi ka wo tashakhkhus bahal krnay ki koshish kry,khas tore per jaghon aor roads ne nam behal krwaen ya logon ko iss bat pr aamadah kren ke sarkari nam khawh kuchh bhi ho hmen asli nam se pukarna hay iss ki behtreen misal ''guru mandir'' hay ya tareekh ki jin shaksiat ka pehlay haq ada nhi kia gaya un ke namon kojaghon aor raston ke nam rakh kr ujagar kia jaey.hmen hmara ram bagh,patel park ,elfi,mcleod rd,sun set street aor sab say bra bundar rd wapas krwa do.......hm nay sheher bhi nhi badla aor naey sher kay basi ho gaey.
Junaid raza Aug 03, 2013 09:56am
nice piece of research sir !!!
عمران گبول Aug 03, 2013 12:15pm
بلوچ صاحب بہترین تحقیقی بلاگ لکھا ہے دھرتی کو سنوارنے والوں کا نام ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور خاص طور پر اپ نے نئی نسل کو بتایا ہے کہ ایک تو نئی نسل نعصب کی عینک اتار پھینکے دوسرا جدوجہد کر کے کس طرح اپنی دھرتی کو سنوارنا ہے اور اپنے محسنوں کو کیسے خراج تحسین پیش کرنا ہے آپ نے دھرتی کے بیٹے کو دھرتی والوں سے دوبارہ متعارف کروا دیا حکومت کو چاہیے کہ انکا مجسمہ دوبارہ لگایا جائے.....
M A Azeem Aug 03, 2013 01:13pm
اختر بلوچ صاحب کی تحریریں دل کو چھونے والی ہوتی ہیں.عام لکھاریوں سے ہٹ کر وہ قارئین تک معلومات اور تاریخ پہنچنانے کا اہم کام بھی انجام دے رہے ہیں.اور یہ بات ان کی انفرادیت ہے .یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گائوں‌کے باسی ہوں‌یا شہری بابو ،سب کو اپنے علاقوں ،گلی محلوں کی تاریخ کا پتا نہیں‌ہوتا اور ایسے میں تحقیقی کام کی تیسری دنیا میں ضرورت شاید وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے.داد دیجئے اختر صاحب کو ،کہ انہوں‌نے مقامی چھوٹی سے کہانی سہی لیکن اس میں وہ بات پرو دی کہ سائمن کمیشن سے لیکر تادم وقت کے بہترین نقاد بھی شامل تحریر ہوگئے.
shamskeerio Aug 03, 2013 03:44pm
اختر بلوچ صاحب کی تحقیقاتی رپورٹ نے میری معلومات میں اضافہ کیا ہے . اختر بلوچ کو تحقیقاتی کام جاری رکھنے کی درخواست کرتا ہوں .
نوشاد احمد Aug 04, 2013 09:36am
اصل میں ہم بت شکن نہیں ہیں بلکہ محسن شکن ہیں اسی لئے ہمارا یہ حال ہے ہم نے سر سید احمد خان سے لے کر ہر چند رائے تک ہر محسن کے خلاف اسلام کے نام پر وہ وہ کام کئے ہیں کہ اسلام بھی شرماتا ہوگا
Sara Aug 04, 2013 09:39am
Sir very informative and truly heart touching. New generation is unaware of such a heroic leaders. It suppose to be the part of the syllabus which is another way of acknowledgement to Seth Harchand Rai Vishandas work.
Ashraf solangi Aug 04, 2013 05:44pm
aslam alekum akhtar baloch sb twhan ji blogs khi parhn san khi samet saji tarkh ji malomat mili thi,khi jon aetryon historical jaghon ahin jin khan asaan ji nojwan tabke kha wanghyal ahin jin khe twhan jehra writter ajagar kan pya,twahnkhi jas huji..........................
نادیہ خانم Aug 04, 2013 06:30pm
خوش رہیے اور اسی طرح اس شہر کے محسنوں کے قصے جگاتے رہیے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی اردو میں اشد ضرورت ہے۔
Sindhia Sharma Aug 05, 2013 06:53pm
wah wah.. akhtar sahab kia baat hay یقیناً یہ سر کسی ‘بت شکن’ نے قلم کیا ہوگا۔
آصف Oct 06, 2013 09:33am
اختر بلوچ صاحب آپ نے بہت زبردست لکھا ہے۔ اور یہ ان دوستوں کیلئے بہت ضروری ہے جو سمجھتے ہیں کہ کراچی فقط قیام پاکستان کے بعد وجود میں آیا۔۔۔پہلے کچھ نہیں تھا۔ میری گذارش یہ ہے کہ آپ نے اپنے بلاگ میں ایک جگہ لکھا ہے تقسیم سے قبل کراچی کا شمار پس ماندہ شہروں میں ہوتا تھا۔ روشنیوں کے شہر میں روشنی کے لیے مٹی کے تیل کے لیمپ ۔ اور گیس بتیاں جلائی جاتیں تھیں میں اس رائے سے متفق نہیں کہ کراچی تقسیم سے قبل پس ماندہ شہر تھا۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ کراچی تقسیم سے پہلے اس ریجن کا صاف شفاف اور ترقی یافتہ شہر تھا

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025