پی آئی اے کے برطرف پائلٹ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا
جعلی ڈگری کے الزام میں برطرف کیے گئے پاکسان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے پائلٹ نے لائسنس کی معطلی کو غیر آئینی اقدام قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے نوٹی فکیشن کو کالعدم کرنے کی درخواست کردی۔
لاہور ہائی کورٹ میں پی آئی اے کے سابق پائلٹ بلال چغتائی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) انتظامیہ کے خلاف درخواست دائر کی۔
مزید پڑھیں:نجکاری فہرست میں پی آئی اے شامل نہیں، ہمیں اس کی تشکیلِ نو کرنی ہے، غلام سرور
درخواست میں حکومتِ پاکستان، سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اور انتظامیہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے اور مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سی اے اے نے ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ کے تحریری امتحان میں خود نہ بیٹھنے کا الزام عائد کر کے لائسنس معطل کر دیا ہے۔
درخواست گزار پائلٹ نے کہا کہ 14 جولائی کو لائسنس معطلی کا نوٹی فیکیشن موصول ہوا اور 14 روز میں اپیل دائر نہ کرنے کی صورت میں لائسنس منسوخی کے لیے کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سول ایوی ایشن رولز کے تحت ڈی جی سول ایوی ایشن کو اپنے ہی کیے گئے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جو غیر آئینی ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ درخواست گزار پائلٹس کا مؤقف سنے بغیر ڈی جی سول ایوی ایشن نے لائسنس معطل کر دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن کو اپنے ہی فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرنے کا اختیار دینا آئین میں دیے گئے شفاف ٹرائل کی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ ڈی جی سول ایوی ایشن کو اپیل کا اختیار دینے کے رولز کو آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ایئر ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس معطلی کے حکم کو بھی غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کیا جائے اور حتمی فیصلے تک لائسنس معطلی کے حکم پر عمل درآمد روکا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:ملائیشیا نے لائسنس مستند ہونے کی تصدیق پر پاکستانی پائلٹس کو بحال کردیا
ادھر وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے اسناد کی تصدیق کا عمل شروع ہوا تھا جس کے بعد سی اے اے نے اپنے طور پر پائلٹس کے لائسنس پر بھی کام شروع کیا اور جب تصدیق اور انکوائری کی گئی تو بہت سارے پائلٹس کے لائسنسز مشکوک پائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پائلٹس کو شوکاز نوٹس دیا گیا، چارج شیٹ دی گئی، ان کو ذاتی حیثیت میں سماعت کے لیے بلایا گیا اور کچھ نے تو اعتراف بھی کیا جن کی تعداد کافی زیادہ تھی۔
وزیر ہوابازی نے کہا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ پائلٹس نے امتحان دینے میں غلط طریقہ اختیار کیا تھا، جس کے بعد فرانزک انکوائری ہوئی اور ایک سال 4 ماہ لگے، جس کے بعد ایوی ایشن ڈویژن کو رپورٹ جمع کروائی گئی، وزیراعظم کو بریف کیا گیا اور 262 پائلٹس کے لائسنسز مشکوک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غلط طریقے سے کوئی دستاویز حاصل کیا جائے تو اسے جعلی سمجھ کر منسوخ کیا جاتا ہے لہذا تمام کارروائیوں کے بعد جب 28 پائلٹس پر یہ ثابت ہوگیا کہ انہوں نے غلط طریقے سے لائسنس لیے گئے تو وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد ان کے لائسنسز منسوخ کیے گئے۔
غلام سرور خان نے کہا کہ جن لائسنسز کے آگے سوالیہ نشان ہے، جیسے جیسے شوکاز ہوتی گئی اور یہ تصدیق ہوئی کہ انہوں نے غلط طریقہ اختیار کیا تو یقیناً وہ لائسنسز جعلی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے یہ تسلیم کیا کہ لائسنسز انہوں نے ہی جاری کیے تھے اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں بھی 262 پائلٹس کی تعداد شامل ہے، جس پر عدالت عظمیٰ نے اس تعداد کی توثیق کی، سخت ایکشن لینے کا کہا اور اتھارٹی کی سرزنش بھی کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ لائسنس اتھارٹی کے 5 عہدیداروں کی معطلی بھی ہوئی، بات یہاں نہیں رکے گی بلکہ منطقی انجام تک جائے گی اور آخری مجرم تک جائے گی۔
پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ
خیال رہے کہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔
وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔
جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ صرف پی آئی اے سے منسلک نہیں‘
بعدازاں 29 جون کو وینتام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پرمقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔
جس کے بعد 30 جون کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوگا۔
اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔
جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجنیئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔
گزشتہ روز ملائیشیا کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ایم) نے کہا تھا کہ پاکستانی لائسنس رکھنے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے تمام 18 پائلٹس کے لائسنس مستند ہونے کی تصدیق کے بعد انہیں بحال کردیا گیا ہے.