کے الیکٹرک پر ہر کوئی انگلی اٹھا رہا ہے، اسکا لائسنس معطل ہونا چاہیے، سندھ ہائیکورٹ
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے علاقوں میں استثنیٰ کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کے الیکٹرک کا لائسنس معطل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ریمارکس دیئے ہیں کہ کے الیکٹرک پر ہر کوئی انگلی اٹھا رہا ہے، اس کا لائسنس معطل ہونا چاہیے۔
عدالت عالیہ میں کراچی میں کنڈے سے بجلی کے حصول اور لوڈ شیڈنگ سے مستثیٰ علاقوں میں بجلی کی بندش کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران عدالت نے الیکٹرک انتظامیہ اور وکلا پر برہمی کا اظہار کیا اور 25 اگست کو کے الیکٹرک انتظامیہ سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس خادم حسین نے ریمارکس دیے کہ کراچی کے لوگ کے الیکٹرک کی وجہ سے بڑی تکلیف میں ہیں، کنڈے سے بجلی کے حصول اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری پریشان ہیں۔
مزید پڑھیں: لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ: نیپرا نے کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کردیا
جسٹس خادم حسین نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹر ک پر ہر کوئی انگلی اٹھا رہا ہے، ایسی صورتحال میں تو کے الیکٹرک کا لائنسنس معطل ہونا چاہیے۔
سماعت کے دوران جج نے استفسار کیا کہ اگر کوئی بجلی چوری کرتا ہے تو ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ جس پر کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ شہر سے کافی علاقوں سے کنڈے ہٹادیے ہیں، بجلی کی تاریں بھی تبدیل کردی ہیں۔
اس پر جسٹس خادم حسین شیخ نے ریمارکس دیے کہ شہر میں تو اب کنڈے لگے ہیں، لوڈ شیڈنگ جاری ہے، ہمارے سامنے باتیں مت بنائیں، بجلی چوری کے کتنے مقدمات بنائے گئے ہیں؟
جس پر کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ہماری ٹیمیں نہیں جاسکتیں، بعض علاقوں میں کنڈے ہٹانے کے بعد لوگ دوبارہ لگا لیتے ہیں۔
اس پر جسٹس خادم حسین شیخ نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ کنڈے ہٹادیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کے الیکٹرک نے ناکارہ لوگ بھرتی کیے ہیں؟
ساتھ ہی جسٹس ارشد حسین خان نے پوچھا کہ بڑی بڑی تاروں پر عام آدمی کنڈا کیسے لگا سکتا ہے؟
جسٹس خادم حسین شیخ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سب معلوم ہے کے الیکٹرک والے صرف پیسے بنا رہے ہیں اور ناکارہ لوگ بھرتی کیے گئے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اگر لوگ کنڈے دوبارہ بھی لگا لیتے ہیں اس کا مطلب ہے آپ کی انتظامیہ ناکارہ ہے۔
بعدازاں عدالت نے تاروں سے کنڈے ہٹانے اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکم دے دیا اور 25 اگست کو کے الیکٹرک انتظامیہ سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
یہ بھی پڑھیں: نیپرا تحقیقات کی روشنی میں کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ
خیال رہے کہ گزشتہ روز نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اوور بلنگ اور لوڈشیڈنگ کے معاملے پر 'کے الیکٹرک' کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔
نیپرا کا کہنا تھا کہ جواب جمع نہ کرانے پر کے الیکٹرک کے خلاف یکطرفہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ کے الیکٹرک کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں اور کیوں نہ کے الیکڑک کے خلاف لوڈشیڈنگ پر کارروائی شروع کی جائے۔
شوکاز نوٹس میں کہا گیا تھا کہ نیپرا کے پاس کے الیکٹرک کا لائسنس معطل یا منسوخ کرنے، جرمانہ اور اضافی جرمانہ عائد کرنے کا اختیار ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں مستقل لوڈشیڈنگ کی تحقیقات کے لیے نیپرا کی جانب سے قائم کمیٹی نے 3 روز قبل اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی جس کی روشنی میں کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
کراچی میں لوڈشیڈنگ
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سے شدید گرم اور مرطوب موسم میں کراچی کے مکینوں اور تاجروں کو طویل دورانیے کی بجلی کی بندش اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے علاوہ کے-الیکٹرک کی جانب سے زائد بلنگ کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
توانائی کی تقسیم کار کمپنی نے بجلی کی بندش کو طلب و رسد میں فرق اور فرنس آئل کی قلت سے منسلک کیا تھا۔
شہر میں جاری بجلی کی طویل بندش اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر کے الیکٹرک کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں توانائی کمپنی نے بجلی کی طلب میں اضافے، فرنس آئل کی کمی اور ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی فراہمی میں 50 ایم ایم سی ایف ڈی کمی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر بجلی کی فراہمی 3 ہزار 150 میگا واٹ سے کم ہو کر 2800 میگا واٹ رہ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: نیپرا کا کراچی میں لوڈشیڈنگ کی انکوائری کیلئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ
تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے-الیکٹرک کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے کہا تھا کہ ’کے-الیکٹرک جھوٹا دعویٰ کررہی ہے کہ ایس ایس جی سی نے گیس کی فراہمی کم کردی ہے‘۔
دوسری جانب وزارت توانائی نے کے-الیکٹرک کی جانب سے کراچی میں بجلی کی طویل بندش کو مارکیٹ میں فرنس آئل کی کمی کا ذمہ دار قرار دینے کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی کی فراہمی کے نظام میں موجود خامیاں اس مسئلے کو حل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
9 جولائی کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا تھا کہ کراچی میں بجلی کی ترسیل اور منتقلی کے نظام میں جو تبدیلی لانی تھی وہ نہیں لائی گئی اور کہا تھا کہ کراچی میں بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام میں بہتری کے منصوبوں پر ریکارڈ مدت میں عملدرآمد ہوگا۔
بعد ازاں 10 جولائی کو نیپرا نے اس حوالے سے عوامی سماعت کے بعد کراچی میں لوڈشیڈنگ کی انکوائری کے لیے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری جانب کراچی میں طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے کے-الیکٹرک کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ بھی لگایا، جبکہ گزشتہ روز جماعت اسلامی نے بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف شہر کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا تھا اور 11 جولائی کو شاہراہ فیصل پر دھرنا بھی دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نیپرا کا کراچی میں زیادہ لوڈشیڈنگ کی شکایات پر عوامی سماعت کا فیصلہ
11 جولائی کو کراچی میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل اور سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا تھا کہ کراچی میں 12 جولائی (بروز اتوار) سے غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔
ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ حکومتی ارکان نے کے الیکٹرک کو خبردار کیا تھا کہ اگر ادارہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہا تو حکومت اسے اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔
تاہم اسد عمر کے دعوے کے برعکس شہر بھر میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔