• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ

شائع July 23, 2020
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے وفاقی کابینہ سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری لینے، نئی احتساب عدالتوں کے لیے انفرا اسٹرکچر بنانے اور ایک ماہ میں نیب رولز بنا کر پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لاکھڑا پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے احتساب کے ادارے کے سربراہ کو مذکورہ کیس کا تفتیشی افسر تبدیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب میں تفتیش کا معیار جانچنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ’نیب ملک و قوم کی خدمت کے بجائے اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے‘

انہوں نے کہا کہ نقائص سے بھرپور تفتیشی رپورٹ ریفرنس میں تبدیل کردی جاتی ہے، ریفرنس دائر کرنے کے بعد نیب اپنی غلطیاں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے، غلطیوں سے بھرپور ریفرنس پر عدالتوں کو فیصلہ کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا آغاز ہی نیب کے دفتر سے ہوتا ہے، قانونی پہلوؤں کا تفتیشی افسران کو پتا ہی نہیں ہوتا اور اس طرح برسوں تحقیقات چلتی رہتی ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں کوئی معیار نہیں ہوتا، ایک ہی گواہ کافی ہوتا ہے لیکن یہاں 50، 50 لوگوں کو گواہ بنا لیا جاتا ہے۔

انہوں نے عدالت میں موجود نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تمام الزام عدالتوں پرلگا دیا، جس پر جواب دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں۔

نیب پراسیکیوٹر کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا ہی ہے، عدالت کو کوئی معانت نہیں ملتی، حقائق اور قانونی پہلوؤں کا معلوم ہی نہیں ہوتا، تحقیقات برسوں تک چلتی رہتی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق سیکریٹری قانون کو ہدایت کی کہ وہ وفاقی کابینہ سے منظوری لے کر ایک ماہ میں ججز تعیناتی کا عمل شروع کریں۔

اس کے علاوہ نیب رولز نیب آرڈیننس کی شق 34 کے تحت بنائے جائیں کیونکہ اس کے ایس او پیز رولز کے متبادل نہیں ہوسکتے۔

بعدا ازاں کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے سیکریٹری قانون کو حکم دیا تھا کہ وہ کیسز کے بڑے بیک لاک کو ختم کرنے کے لیے کم از کم 120 احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لیے حکومت سے فوری طور پر ہدایات حاصل کریں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ہدایات سال 2000 سے 1226 ریفرنسز کے زیر التوا ہونے سمیت مجموعی طور پر 25 میں سے 5 احتساب عدالتوں میں اسامیاں خالی ہونے پر مایوسی کے اظہار کے بعد سامنے آئیں تھیں۔

خیال رہے کہ ملک کے اہم مسائل میں سے بدعنوانی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کا ادارہ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس وقت نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال ہیں اور وہ کئی مرتبہ بلا امتیاز احتساب کے عزم کو دوہرا چکے ہیں۔

تاہم اس کے باوجود اب تک احتساب عدالتوں میں کئی مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ اپوزیشن میں موجود جماعتیں موجودہ حکومت پر یہ الزام لگاتی آرہی ہیں کہ نیب کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ حکومت ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ دنوں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب کے طرز عمل کو قانون، عدل، انصاف اور معقولیت کی مکمل خلاف ورزی کا واضح اظہار قرار دیا تھا۔

87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا تھا کہ ’موجودہ کیس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی سے غیرقانونی محرومی اور انسانی وقار کو مکمل طور پر اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال ہے‘۔

جسٹس مقبول باقر نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کا امتیازی سلوک بھی اس کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ اس کی صداقت اور غیرجانبداری پر لوگوں کے یقین کو دھچکا لگا ہے۔

وزارت قانون کا جواب

علاوہ ازیں 120 نئی عدالتوں کے قیام کے معاملے میں وزارت قانون نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں بتایا گیا کہ 120 عدالتوں کے قیام میں مالی مسائل کا سامنا ہے جبکہ اس کے لیے سالانہ 2 ارب 86 کروڑ روپے کے بجٹ کی ضرورت ہوگی اور اسامیوں کے لیے وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری بھی حاصل کرنا ہوگی۔

جواب میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں مشاورت کا عمل شروع کردیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے بجٹ بھی وزارت خزانہ نے پاس کرنا ہوگا۔

مزید برآں یہ بھی بتایا گیا کہ 5 احتساب عدالتوں میں ججز کی خالی اسامیاں پُر کرنے کے لیے سمری ارسال کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا 120 احتساب عدالتوں کے لیے حکومت سے ہدایت لینے کا حکم

دوسری جانب جواب میں زیر التوا مقدمات کے بارے میں بھی بتایا گیا اور کہا گیا کہ ملک بھر کی 24 احتساب عدالتوں میں 975 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ تمام عدالتیں فعال ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد کی 3 احتساب عدالتوں میں 110 مقدمات زیر التوا ہیں، اس کے علاوہ لاہور کی 5 عدالتوں میں 213، راولپنڈی کی 3 عدالتوں میں 18 مقدمات زیر التوا ہیں۔

جواب میں بتایا گیا کہ ملتان کی ایک عدالت میں 80، سکھر میں 56 اور کوئٹہ کی 2 عدالتوں میں 108 مقدمات زیر التوا ہیں۔

ساتھ ہی جواب میں کہا گیا کہ کراچی کی 5 عدالتوں میں 188 اور حیدرآباد کی عدالت میں 38 مقدمات ہیں جبکہ پشاور کی 4 احتساب عدالتوں میں 164مقدمات زیر التوا ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024