• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:27pm

نیپرا تحقیقات کی روشنی میں کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ

شائع July 21, 2020
نیپرا کی تحقیقاتی کمیٹی نے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرادی— فائل فوٹو: اے ایف پی
نیپرا کی تحقیقاتی کمیٹی نے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرادی— فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں مستقل لوڈ شیڈنگ کی تحقیقات کے لیے نیپرا کی جانب سے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے جس کی روشنی میں کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کراچی میں لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے معاملے کی تحقیقات کے لیے نیپرا کی جانب سے قائم تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

مزید پڑھیں: نیپرا کا کراچی میں لوڈشیڈنگ کی انکوائری کیلئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ

کمیٹی کی تحقیقات کی روشنی میں حکام نے اپنی کارروائی جاری رکھنے اور کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے شدید گرم اور مرطوب موسم میں کراچی کے مکینوں اور تاجروں کو طویل دورانیے کی بجلی کی بندش اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے علاوہ کے-الیکٹرک کی جانب سے زائد بلنگ کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ توانائی کی تقسیم کار کمپنی نے بجلی کی بندش کو طلب و رسد میں فرق اور فرنس آئل کی قلت سے منسلک کیا تھا۔

شہر میں جاری بجلی کی طویل بندش اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر کے الیکٹرک کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں توانائی کمپنی نے بجلی کی طلب میں اضافے، فرنس آئل کی کمی اور ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی فراہمی میں 50 ایم ایم سی ایف ڈی کمی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر بجلی کی فراہمی 3 ہزار 150 میگا واٹ سے کم ہو کر 2800 میگا واٹ رہ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب نے کے-الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا

تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے-الیکٹرک کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے کہا تھا کہ ’کے-الیکٹرک جھوٹا دعویٰ کررہی ہے کہ ایس ایس جی سی نے گیس کی فراہمی کم کردی ہے‘۔

دوسری جانب وزارت توانائی نے کے-الیکٹرک (کے ای) کی جانب سے کراچی میں بجلی کی طویل بندش کو مارکیٹ میں فرنس آئل کی کمی کا ذمہ دار قرار دینے کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی کی فراہمی کے نظام میں موجود خامیاں اس مسئلے کو حل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

علاوہ ازیں 9 جولائی کو وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا تھا کہ کراچی کو 30 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دوسری جگہوں سے دی جائے گی جس سے مزید 200 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ کراچی کو علیحدہ 100 ایم ایم سی ایف ڈی دے رہے ہیں بلکہ 180 تک چلے گئے ہیں اور 100 میگاواٹ بھی نیشنل گرڈ سے دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی میں فیول کی عدم فراہمی پر لوڈشیڈنگ کا 'کے الیکٹرک' کا دعویٰ مسترد

اسی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا تھا کہ کراچی میں بجلی کی ترسیل اور منتقلی کے نظام میں جو تبدیلی لانی تھی وہ نہیں لائی گئی اور کہا تھا کہ کراچی میں بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے نظام میں بہتری کے منصوبوں پر ریکارڈ مدت میں عملدرآمد ہوگا۔

بعدازاں 10 جولائی کو نیپرا نے اس حوالے سے عوامی سماعت کے بعد کراچی میں لوڈشیڈنگ کی انکوائری کے لیے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب کراچی میں طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف گزشتہ کچھ روز سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے کے-الیکٹرک کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا جبکہ گزشتہ روز جماعت اسلامی نے بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف شہر کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا تھا اور 11 جولائی کو شاہراہ فیصل پر دھرنا بھی دیا تھا۔

مزید برآں 11 جولائی کو کراچی میں گورنر سندھ عمران اسمٰعیل اور سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا تھا کہ کراچی میں 12 جولائی (بروز اتوار) سے غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو وفاق اس کا کنٹرول حاصل کرلے گا، اسد عمر

ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ حکومتی ارکان نے کے الیکٹرک کو خبردار کیا تھا کہ اگر ادارہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہا تو حکومت اسے اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔

تاہم اسد عمر کے دعوے کے برعکس شہر بھر میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sarwat naqvi Jul 21, 2020 09:31pm
Good idea You need more private electric companies

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024