صحافی مطیع اللہ جان لاپتا، اپوزیشن کا اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ طور پر لاپتا ہونے کے معاملے پر احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے ایوان میں اسلام آباد سے مبینہ طور پر لاپتا کیے جانے والے صحافی مطیع اللہ جان کے معاملے پر توجہ دلائی۔
مزید پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے لاپتا
اس دوران پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے بھی احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
اس حوالے سے نوید قمر نے کہا کہ صحافی مطیع اللہ جان کو لاپتا کیے جانے کا واقعہ کسی فرد واحد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ میڈیا کو خاموش کرانے کا حربہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ واقعہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے'۔
نوید قمر نے کہا کہ 'ہم صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ طور پر لاپتا کیے جانے کی مذمت کرتے ہیں اور احتجاجاً واک آؤٹ کررہے ہیں'۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ میڈیا کی آزادی جمہوریت کا حسن ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں بھی آزادی صحافت ایک بنیادی حق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس کے دو اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف
خواجہ آصف نے کہا کہ حقائق مسخ نہیں کیے جا سکتے۔
بعدزاں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری سے درخواست کی کہ وہ وزارت داخلہ سے معاملے پر جواب طلب کرلیں۔
واضح رہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اور اس بات کی تصدیق ان کی اہلیہ نے بھی کی۔
رپورٹس میں بتایا گیا کہ مطیع اللہ جان کی گاڑی اسلام آباد کے سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی اور اس میں ان کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔
اطلاع ملنے کے بعد پولیس اسٹیشن آبپارہ کی نفری مذکورہ مقام پر پہنچی، سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عمر خان اور دیگر پولیس افسران بھی موقع پر موجود تھے۔
سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف ایک متنازع ٹوئٹ پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا از خود نوٹس زیر سماعت ہے جس کی سماعت رواں ہفتے ہوگی۔
قبل ازیں آج ہی کے روز صبح 11 بج کر 5 منٹ پر انہوں نے ایک صحافی کا انٹرویو ری ٹوئٹ کیا تھا اور اس کے ساتھ لکھا تھا کہ ’یہ ان لوگوں کی توجہ کے لیے ہے جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے مصنوعی ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ تنقید انسان کے ناقابل تسخیر وقار کی خلاف ورزی سے بھی بڑا جرم ہے‘۔