لیبیا میں مصر کی کارروائیاں 'غیر قانونی' ہیں، رجب طیب اردوان
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے لیبیا میں مصر اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشرقی علاقے کی فورسز سے تعاون کو مسترد کردیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے لیبیا کے قبائلی رہنماؤں سے ملاقات کی جنہوں نے قاہرہ کو مداخلت پر زور دیا تھا۔
خیال رہے کہ لیبیا میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ ترکی کے اچھے تعلقات ہیں اور عسکری مدد بھی فراہم کی جارہی ہے جبکہ مصر، متحدہ عرب امارات اور روس متحارب گروپ خلیفہ حفتر کی فورسز کے ساتھ ہیں۔
مزید پڑھیں: لیبیا میں ایئر ڈیفنس نظام پر حملہ، ترکی کا 'بدلہ' لینے کا اعلان
حال ہی میں ترکی سے مدد کے حصول کے بعد طرابلس کی جی این اے حکومت نے ڈرامائی انداز میں کمانڈر حفتر کی فورسز کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
کمانڈر حفتر نے گزشتہ برس طرابلس پر حملے شروع کردیے تھے اور اہم علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔
رواں ہفتے مشرقی فورسز کے قانون ساز نے مصر سے تنازع میں مداخلت کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد گزشتہ روز السیسی نے لیبیا کے قبائلی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
مصری صدر نے کہا کہ مصر اور لیبا کی سلامتی کو درپیش براہ راست خطرات پر ان کا ملک خاموش نہیں رہے گا۔
ترک صدر اردوان نے مصر کی مداخلت کے امکانات سے متعلق سوال پر کہا کہ ترکی اپنا تعاون جی این اے کے ساتھ بدستور جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'یہاں مصر کے اقدامات خصوصاً باغی حفتر کی جانبداری سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک غیر قانونی عمل میں ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں:لیبیا میں ’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے ترکی کے ایئر ڈیفنس کو تباہ کردیا
اردوان نے کہا کہ 'متحدہ عرب امارات کا رویہ قزاق کی طرح ہے'۔
قبل ازیں سیسی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر طرابلس حکومت اور اس کے ترک اتحادیوں نے جوفرا کی سرحد پر کارروائی کی تو مصری فوج لیبیا میں داخل ہوسکتی ہے۔
لیبیا کے الوطیہ ایئربیس پر 5 جولائی کو نامعلوم جنگی طیاروں نے ترکی کے ایئر ڈیفنس نظام کو تباہ کردیا تھا، جی این اے فورسز نے ترکی کی مدد سے مئی میں الوطیہ پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا تھا۔
لیبیا کے عسکری ذرائع نے بتایا تھا کہ الوطیہ فوجی اڈے پر جنگی طیاروں کی بمباری سے ترکی کا ایئر ڈیفنس نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
جی این اے کے مخالف گروپ لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کے کمانڈر خلیفہ حفتر نے کہا تھا کہ ایئربیس پر حملہ نامعلوم جنگی طیاروں نے کیا۔
حملے کے بعد برطانیہ نے ردعمل میں کہا تھا کہ لیبیا میں غیر ملکی مداخلت کے باعث سیاسی تنازع کے حل میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں اور متحارب فریقین کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔
مزید پڑھیں: عرب لیگ کی لیبیا میں فوج بھیجنے کیلئے ترک پارلیمنٹ کی منظوری کی مذمت
بعد ازاں ترکی نے سخت غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوں گے اور اس کا بدلہ لیا جائے گا۔
ترکی کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ 'میں صرف جو بات کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس نے بھی یہ کیا ہے اس نے بڑی غلطی کی ہے، اس کا بدلہ لیا جائے گا'۔
ایک اور عہدیدار نے کا کہنا تھا کہ ایئربیس کو نشانہ بنانے والے طیارے ڈیسالٹ میراج ہیں جو متحدہ عرب امارات کے پاس ہیں۔
یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے خلاف 2011 میں نیٹو اتحاد کی حمایت سے کارروائی شروع کی گئی تھی اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا لیکن ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔
معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ کر لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل تھا۔