• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اسٹیل ملز سے متعلق منصوبہ صرف تباہی ہے، چیف جسٹس

شائع July 16, 2020
چیف جسٹس آف پاکستان—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس آف پاکستان—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ اسٹیل ملز سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ورکرز ویلفیئر بورڈ خیبرپختونخوا کے ملازمین اور پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین سے متعلق الگ الگ درخواستوں پر سماعت کی۔

اسٹیل ملز ملازمین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ملز انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسٹیل ملز سے متعلق بنایا گیا کہ منصوبہ صرف تباہی ہے، زیادہ ہوشیاری اسٹیل ملز انتظامیہ کے گلے پڑ جائے گی۔

مزید پڑھیں: اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین فارغ کرنے کی منظوری

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز تمام ملازمین کو نہیں نکال سکتی، ملازمین کو اس طرح نکالا تو 5 ہزار مقدمات بن جائیں گے، جس پر عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ نے اسٹیل ملز کے تمام ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔

اس پر وکیل اسٹیل ملز کا کہنا تھا کہ ملازمین کی برطرفی کے لیے 40 ارب روپے درکار ہوں گے، اسٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے گا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہ ہو کہ اسٹیل مل انتظامیہ کو برطرف کئے گئے ملازم ہی دوبارہ رکھنے پڑیں۔

عدالتی ریمارکس پر اسٹیل ملز کے وکیل کا کہنا تھا کہ انڈسٹریل ریلیشن قانون کی شق 11 اس معاملے میں آڑے آئے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شق نہیں بلکہ پورا قانون آئے گا۔

بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت سے اسٹیل ملز سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے 14 ہزار 753 ملازمین کے لیے انسانی وسائل کا کوئی منصوبہ تشکیل دیے بغیر جون 2015 میں تجارتی سرگرمیاں روک دی گئی تھیں، جس کے بعد 2019 تک ملازمین کی تعداد کم ہو کر 9 ہزار 350 رہ گئی تھی۔

بعد ازاں رواں سال جون میں حکومت نے یکمشت ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے کی منظوری کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

ورکرز ویلفیئر بورڈ کرپٹ ترین ادارہ ہے، چیف جسٹس

دوسری جانب ورکرز ویلفیئر بورڈ خیبرپختونخوا کے ملازمین سے متعلق معاملے کی بھی الگ سماعت ہوئی۔

دوران سماعت وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ 18 پولی ٹیکنیکل اداروں میں صرف 628 طالب علم ہیں، ان اداروں میں 474 لوگ بھرتی کیے گئے ہیں، جن کی ماہانہ تنخواہ 2 کروڑ روپے ادا کی جارہی ہے۔

وکیل کے مطابق فی بچے پر تقریباً 32 ہزار روپے ماہانہ کے اخراجات بنتے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ورکرز ویلفیئر بورڈ تحلیل کرکے ملازمین کو فارغ کرنے کا عندیہ بھی دیا اور ریمارکس دیے کہ تمام افسران اور ملازمین کو فارغ کر دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیا بورڈ تشکیل دیا جائے گا اور تمام بھرتیاں بھی دوبارہ ہوں گی، تحریری فیصلے میں یہ سب کچھ لکھیں گے۔

دوران سماعت ورکرز ویلفیئر بورڈ کے اساتذہ نے افسران پر خلاف ضابطہ تقرر ہونے کا الزام لگایا، جس پر عدالت نے ورکرز ویلفیر افسران کی شکایت کرنے والوں کے کوائف بھی لے لیے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے الزام لگانے والے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ افسران کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی فارغ کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ افسران سارے غلط ہوں اور آپ کی تعیناتی ٹھیک ہوئی ہو۔

اس موقع پر چیف جسٹس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ کمرہ عدالت میں موجود افسران اپنے نام، عہدے اور قابلیت لکھ کر دیں۔

چیف جسٹس نے ورکرز ویلفیئر بورڈ اور افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی سرکاری ادارے میں وزرا کے سفارشی برداشت نہیں کریں گے۔

ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ بھرتیوں میں وزرا کا کیا کام ہے؟ مزدوروں کا پیسہ سیاسی رشوت کے طور پر پھینکا جاتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ورکرز ویلفیر بورڈ کے پی کے میں کرپشن اور اقربا پروری عروج پر ہے، ورکرز ویلفئیر بورڈ گھوسٹ ملازمین سے بھرا پڑا ہے، تمام بھرتیاں سیاسی ہیں یا پھر افسران نے اپنے رشتہ دار بھرتی کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کانٹریکٹ ملازمین کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کا جواب مسترد

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے سارا کے پی کے صرف سرکاری ملازمت ہی کرتا ہے، ورکرز ویلفیئر بورڈ افسران کو ذرا شرم نہیں آتی، ورکرز ویلفیئر بورڈ کرپٹ ترین ادارہ ہے، کوئی ملازم بھی قانون کے مطابق بھرتی نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ تحلیل کرکے تمام افسران کو فارغ کردینگے، بڑی بڑی تنخواہیں لینے والوں نے ادارے کی کوئی بہتری نہیں کی، بورڈ میں مزدوروں کا پیسہ ہے اس لیے حکومت دلچسپی نہیں لیتی۔

بعد ازاں عدالت نے عدالت نے 294 اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی برطرفی کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024