امریکی کمپنی کی کورونا ویکسین مطلوبہ مدافعتی ردعمل فراہم کرنے میں کامیاب
نوول کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہونے والی سب سے پہلی ویکسین کے ابتدائی نتائج متاثر کن رہے ہیں۔
امریکی کمپنی موڈرینا نے مارچ میں سب سے پہلے کورونا وائرس کے حوالے سے تجرباتی ویکسین ایم آر این اے 1273 کی آزمائش انسانوں پر شروع کی تھی اور اب لگ بھگ 4 ماہ بعد پہلے مرحلے کے مکمل نتائج سامنے آئے ہیں، جبکہ مئی میں کمپنی نے ابتدائی نتائج جاری کیے تھے۔
طبی جریدے دی نیو انگلیند جرنل آف میڈیسین میں یہ نتائج شائع ہوئے اور ان کے مطابق یہ تجرباتی ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ اور کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے مطلوب مدافعتی ردعمل پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس ویکسین کی تیاری میں شامل یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے ماہرین نے کہا کہ نتائج سے ویکسین پر مزید تحقیق کے خیال کو تقویت ملتی ہے۔
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب موڈرینا کی جانب سے ویکسین کے تیسرے اور آخری مرحلے کا آغاز 27 جولائی سے ہورہا ہے جس میں 30 ہزار افراد کو شامل کرکے دیکھا جائے گا کہ ویکسین کورونا وائرس کی روک تھام میں کس حد تک موثر ہے۔
منگل کی شب جاری ہونے والے نتائج ان 45 رضاکاروں پر ویکسین کے اثرات کا ذکر کیا گیا تھا جو مارچ میں ویکسین کی ابتدائی آزمائش کا حصہ بنے تھے۔
18 سے 55 سال کی عمر کے ان رضاکاروں کو 3 گروپس میں تقسیم کرکے، کم، درمیانی یا زیادہ ڈوز دی گئی۔
ان رضاکاروں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اُس سطح کی اینٹی باڈیز بن گئیں جو کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں دیکھی گئی تھیں۔
اس آزمائش کے دوران کچھ رضاکاروں کو کچھ ہفتوں میں ویکسین کے 2 ڈوز دیئے گئے جس سے اینٹی باڈیز کی سطح بڑھانے میں مدد ملی۔
تحقیق کے نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیا گیا مگر بنیادی طور پر اس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ اور مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے یا نہیں۔
اس تحقیق میں کہیں بھی یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ویکسین واقعی وائرس سے لوگوں کو تحفظ دے سکتی ہے یا نہیں، جبکہ ابھی یہ معلوم نہیں کہ لوگوں کے لیے تحفظ کے لیے کس حد تک مدافعتی ردعمل کی ضرورت ہے یا وہ کتنے عرصے تک محفوظ رہ سکیں گے۔
ان سوالات کے جواب 30 ہزار افراد پر ہونے والے آخری ٹرائل میں سامنے آئیں گے، جس میں ایک گروپ کو ویکسین اور دوسرے کو placebo (بطور دوا کے دیا جانے والا ایک بے ضرر مواد ) دیا جائے گا۔
پھر دونوں گروپس میں موازنہ کیا جائے گا کہ کس میں کووڈ 19 کے زیادہ افراد متاثر ہوتے ہیں۔
ابتدائی تحقیق میں رضاکاروں کی اکثریت نے مختلف سائیڈ ایفیکٹس رپورٹ کیے جو معمولی تھے۔
سب سے عام مضر اثرات میں تھکاوٹ، ٹھنڈ لگنا، سردر، مسلز میں تکلیف اور انجیکشن لگنے کے مقام میں تکلیف قابل ذکرتھے۔
زیادہ ڈوز والے 15 میں سے 3 افراد نے ایک یا اس سے زیادہ شدت مضر اثرات کو رپورٹ کیا۔
کچھ سائیڈ ایفیکٹس کورونا وائرس کی علامات سے ملتے جلتے تھے مگر ان کا اثر ویکسینیشن کے بعد ایک دن سے زیادہ نہیں رہا۔
طبی ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کے خلاف تحفظ کے لیے معمولی قیمت ادا کرنا ہوگی اور ابتدائی نتائج پہلا مثبت قدم ہے، توقع ہے کہ آخری ٹرائل میں حتمی طور پر طے ہوجائے گا کہ ویکسین کس حد تک محفوظ اور موثر ہے اور کب تک عام دستیاب ہوگی۔
اس کمپنی نے حال ہی میں ویکسین کے دوسرے مرحلے کو مکمل کیا ہے جس میں نوجوان اور بزرگ افراد کو شامل کیا گیا تھا مگر ابھی اس کے نتائج جاری نہیں ہوئے۔
خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد کورونا ویکسینز پر کام جاری ہے جس میں 21 انسانی آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
موڈرینا کے ساتھ ساتھ چین اور برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینز بھی انسانی آزمائش کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔
موڈرینا کی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے بعد 'ایف ڈی اے' کی جانب سے اس ویکسین کے استعمال کی منظوری کا فیصلہ ہوگا اور یہ منظوری اسی صورت میں دی جائے گی اگر یہ محفوظ اور موثر ثابت ہوئی جبکہ اس کے فوائد خطرات سے زیادہ ہوئے۔
بیان میں کہا گیا کہ کم قدار سے زیادہ افراد کو وائرس سے تحفظ مل سکے گا۔
خیال رہے کہ عام طور پر ایک ویکسین کی تیاری میں کئی برس لگتے ہیں مگر کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے کی رفتار کے باعث ویکسین کی تیاری بھی بہت تیزی سے ہورہی ہے۔
مگر ویکسین کی تیاری میں اس کا موثر اور محفوظ ہونا ہی چیلنج نہیں بلکہ اربوں ڈوز کی فراہمی بھی اہم ترین مرحلہ ہوگا۔
متعدد کمپنیاں بشمول موڈرینا کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ تمام کلینیکل ٹرائلز مکمل ہونے سے قبل ہی ویکسین کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کردیں گی۔
موڈرینا نے اس مقصد کے لیے ایک بڑی دوا ساز کمپنی لونزا کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا تھا تاکہ ایک سال میں ایک ارب ڈوز تیار کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے۔
واضح رہے کہ اس ویکسین میں ایک نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے جو اب تک کسی اور منظور شدہ ویکسین میں استعمال نہیں ہوئی۔
بیشتر روایتی ویکسینز میں وائرس کے ناکارہ یا کمزور ورژن کو استعمال کرکے جسمانی مدافعتی نظام کو اس کے خلاف لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے، مگر اس نئی ویکسین میں ایک مالیکیول میسنجر آر این اے کو استعمال کیا گیا ہے جو خلیات کو خود وائرل پروٹین بنانے کی ہدایت کرتا ہے۔
ایم آر این اے خلیات کو کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین بنانے کی ہدایت دیتا ہے، جو یہ وائرس انسانی خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ اس سے مدافعتی نظام کو اسپائیک پروٹین کو شناخت کرکے اس کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے میں مدد مل سکے گی۔
اس ٹیکنالوجی کو ویکسین کی تیاری کے لیے تیز طریقہ کار قرار دیا جارہا ہے اور روایتی ویکسینز کے مقابلے میں زیادہ مستحکم بھی کہا جارہا ہے۔