'جھوٹے پروپیگنڈے' پر ردعمل: نیپال میں بھارتی نیوز چینلز کی نشریات بند
نیپال نے بھارت کے 'جھوٹے پروپیگنڈے' پر ردعمل دیتے ہوئے ملک میں بھارتی نیوز چینلز کی نشریات بند کردیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق ایک آپریٹر نے کہا کہ یہ اقدام بھارتی چینلز پر وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے خلاف قابل اعتراض مواد نشر کرنے پر عوامی شکایات کے ردعمل میں اٹھایا گیا ہے۔
نیپال میں بھارتی چینلز کی نشریات 'زی نیوز' کی اس رپورٹ کے کئی روز بند کی گئیں کہ کے پی شرما اولی کے نیپال میں چینی سفیر سے قریبی تعلقات تھے، جنہوں نے اولی کی نیپال کمیونسٹ پارٹی کے متعدد رہنماؤں سے ملاقات کی۔
میکس ڈیجیٹل ٹی وی کے نائب چیئرمین دُھربا شرما نے بتایا کہ 'ہم بھارتی چینلز کی طرف سے ہمارے ملک کے خلاف قابل اعتراض نشر کرنے کے بعد انہیں بند کرنا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: بھارت مجھے اقتدار سے ہٹانے کی سازش کررہا ہے، نیپالی وزیراعظم
ڈِش میڈیا نیٹ ورک کے منیجنگ ڈائریکٹر سُدوپ آچاریا کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی نے ناظرین کی شکایات کے بعد ان چینلز کو بند کیا۔
قبل ازیں نیپال کے وزیر خزانہ یوبراج کھاٹیواڈا نے 'کردار کشی' پر مبنی بھارتی نشریات کی مذمت کی تھی۔
انہوں نے پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ 'ہم پڑوسی ملک سمیت تمام میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی خبریں نشر نہ کریں جس سے ہمارے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔'
کٹھمنڈو پوسٹ نے جمعہ کو اپنے اداریہ میں بھارتی نیوز چینلز پر سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وہ شرما اولی کے خلاف نیا اور انتہائی جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
بھارتی چینلز پر کورونا وائرس کا استعمال کرتے ہوئے نیپال میں اسلام مخالف مواد پیش کرنے کا الزام بھی لگایا گیا، تاکہ ملک میں 4 فیصد آبادی والی اقلیت کے خلاف نفرت پیدا کی جائے اور نقص امن کا خطرہ پیدا ہو۔
مزید پڑھیں: نیپال کی پارلیمنٹ نے بھارت سے تنازع کے باوجود نئے نقشے کی منظوری دے دی
دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع کیا ہے؟
بھارت اور نیپال کے درمیان کم از کم 200 سال سے دونوں ممالک کی سرحد پر موجود (کالا پانی علاقہ) کے نام سے موجود علاقے پر کشیدگی جاری ہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ نیپال کا حصہ تھا مگر 1816 میں ریاست نیپال اور اس وقت متحدہ ہندوستان کی برٹش انڈین حکومت کے درمیان اس علاقے سے متعلق ایک معاہدہ ہوا جسے سگولی معاہدے کا نام دیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت نیپال کی ریاست، کالاپانی کے علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے سے دستبرداری ہوگئی تھی مگر ساتھ ہی معاہدے کے تحت کچھ حقوق نیپال کو بھی دیے گئے تھے، علاوہ ازیں نیپال کی ریاست کو برٹش انڈین حکومت نے بدلے میں دوسرے علاقوں تک بھی رسائی دی تھی۔
مگر 150 سال بعد جب متحدہ ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور بھارت ایک الگ ملک بنا تو اس نے دیگر علاقوں کی طرح اس علاقے کو بھی اپنی حدود میں شامل کرلیا مگر نیپال نے اس وقت سے ہی اس پر احتجاج شروع کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کالاپانی سے اپنی فوج واپس بلائے، نیپالی وزیراعظم
بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ 1816 میں ہونے والے معاہدے کے تحت اب کالا پانی کا علاقہ اس کی ملکیت ہے جب کہ نیپال کا مؤقف ہے کہ اس علاقے کی اصل ملکیت نیپال کے پاس ہی ہے مگر معاہدے کےتحت اس کے بعض انتظامات بھارت سنبھال سکتا ہے۔
لیکن حال ہی میں اس معاملے پر اس وقت دونوں ممالک میں کشیدگی دیکھی گئی جب بھارتی حکومت نے اس علاقے میں ایک روڈ بنانے کا افتتاح کیا تھا جو چین اور بھارت کو ملاتا ہے۔
بھارت کی جانب سے متنازع علاقے کو اپنی ملکیت سمجھ کر نیپال سے تجویز لیے بغیر ہی روڈ بنانے پر نیپال نے برہمی کا اظہار کیا اور نیپالی حکومت نے ایک ایسا نقشہ جاری کردیا جس میں کالاپانی کے علاقے کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا تھا۔
کالا پانی کا علاقہ زمینی طور پر بھارت کی ریاست اترا کھنڈ اور نیپال کے صوبے سدر پشچم پردیش کے درمیان واقع ہے اور دلچسپ بات ہے کہ ان دونوں ممالک کی سرحد کے ساتھ چین کا متنازع علاقہ تبت بھی واقع ہے، جس پر بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔
کالا پانی کا علاقہ لمپیادھورا اور لپولیکھ نامی علاقوں کا ایک مجموعہ ہے اور یہ علاقے ہمالیہ پہاڑوں کے دامن میں تین ممالک یعنی نیپال، بھارت اور چین کی سرحد پر واقع ہے، جس کی وجہ سے تینوں ممالک میں کشیدگی جاری رہتی ہے۔