پی ٹی ڈی سی برطرفیاں: عدالت کا وزیراعظم کے معاون خصوصی کے اختیارات پر سوال
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل کی ترقی سید ذوالفقار عباس بخاری (زلفی بخاری) کی جانب سے پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے ملازمین کو بطور قائم مقام چیئرمین برطرف کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھادیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی ڈی سی نے حال ہی میں 36 موٹل بند کرتے ہوئے 450 ملازمین کو فارغ کردیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے برطرف کیے گئے ملازمین کو مالی اعانت کے پیکیج کی پیش کش کی لیکن انہوں نے اسے مسترد کردیا جبکہ پی ٹی ڈی سی کے ایک سابق ملازم نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
مزید پڑھیں: 'پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن بند نہیں کررہے، تنظیم نو کیلئے اقدامات کر رہے ہیں'
مذکورہ معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی اور سوال کیا کہ پی ٹی ڈی سی کے قائم مقام چیئرمین ہونے کی حیثیت سے زلفی بخاری اتنا بڑا فیصلہ کیسے لے سکتے ہیں۔
جج نے استفسار کیا کہ 'کیا ملک میں کوئی اہل فرد ایسا نہیں ہے جس کو باقاعدہ منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا جا سکے؟'
اس موقع پر انہوں نے زلفی بخاری کی تقرری کے خلاف دائر مختلف درخواستوں کو یکجا کردیا اور انہیں 22 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی ڈی سی کے 14 ملازمین کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر کردہ ایک درخواست میں انتخاب عالم کی پی ٹی ڈی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے تقرری کو بھی چیلنج کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی علاقہ جات میں ٹورازم کارپوریشن کے تمام ہوٹلز بند، ملازمین فارغ
درخواست گزاروں نے نیشنل ٹورازم کوآرڈینیشن بورڈ (این ٹی سی بی) کے قیام پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سیاحت کے صوبوں میں منتقلی کے بعد این ٹی سی بی کا قیام غیر آئینی تھا۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ 'فریق نمبر 4 (زلفی بخاری) کی وزیر اعظم کے ساتھ ذاتی دوستی ایک کھلا راز ہے، ان کی عمر 40 سال سے بھی کم ہے اور فی الحال وہ وفاقی حکومت میں متعدد بااثر عہدوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان کی پرورش برطانیہ میں ہوئی ہے لیکن وزیر اعظم سے ذاتی دوستی کی وجہ سے وہ اوورسیز پاکستانیوں اور ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ پر پہلے وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے مقرر ہوئے اور پھر انہیں این ٹی سی بی بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا اور بعد میں انہیں پی ٹی ڈی سی بورڈ کا بھی چیئرمین بنا دیا گیا'۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں پی ٹی ڈی سے نے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے ملک کے شمالی علاقہ جات میں موجود تمام ہوٹلز بند کرتے ہوئے ملازمین کو فارغ کردیا تھا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ کارپوریشن مسلسل نقصانات برداشت کررہی تھی جس کی وجہ سے یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوئی۔
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ ’وسائل نہ ہونے، مسلسل اور ناقابل تلافی مالی نقصانات اور موجودہ کووِڈ 19 کی وبا کی وجہ سے وفاقی حکومت اور پی ٹی ڈی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے متفقہ طور پر کمپنی کے افعال بند کرنے کا فیصلہ کیا‘۔
مذکورہ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینے اور کمپنی کی صورتحال اور حقائق پر غور کرتے ہوئے ملازمین، کمپنی اور شیئر ہولڈرز کی بقا اور مستقبل کے بہترین مفاد میں اٹھایا گیا تھا۔
حکام کا کہنا تھا کہ کمپنی کے پاس یہ تکلیف دہ فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
خیال رہے کہ پورے شمالی علاقہ جات میں 24 سے 25 ہوٹلز یا ریسٹورنٹس کو بند کردیا گیا تھا جو کارپوریشن کی جانب سے گزشتہ برس مارچ میں بند کیے گئے ’مسائل کا شکار‘ 6 ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے علاوہ ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ برس پی ٹی ڈی سی نے پنجاب میں ٹیکسلہ، خیبرپختونخوا میں چھتر، گلگت بلتستان میں استک، بلوچستان میں خضدار، خیبرپختونخوا میں چکدرہ اور اسلام آباد کے دامنِ کوہ ریسٹورنٹ کو بند کردیا تھا۔