گھریلو ملازمین کو بھی اپنا گھر چلانا ہے صاحب
اعجاز کچھ عرصہ پہلے تک ایک 80 سالہ بزرگ آدمی کے لیے بطور ہوم نرس کام کررہے تھے۔ وہ 3 برس سے اپنی خدمات فراہم کر رہے تھے لیکن پھر کورونا وائرس کے بحران کے بیچ اچانک ہی انہیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔
45 برس کی عمر کو پہنچنے والے اعجاز گزشتہ 2 ماہ سے بے روزگار ہیں۔ اعجاز کو بہت ساری فکروں نے گھیرا ہوا ہے۔ ان کے 4 بچے ہیں، جن میں سب سے بڑی بیٹی 16 برس کی ہے، اور وہ اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں۔
مالک مکان پچھلے 2 ماہ کے کرائے کی ادائیگی کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اعجاز بتاتے ہیں کہ 'گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لیے میں دوستوں اور رشتہ داروں سے پیسے ادھار مانگنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ مجھے فکر ہے کہ اسکول کی فیس ادا نہ کرپانے کی وجہ سے کہیں میرے بچوں کے نام اسکول سے خارج نہ کردیے جائیں۔ ان حالات میں آخر کس طرح گزارا ہوسکتا ہے؟'
اعجاز جن بزرگ آدمی کی دیکھ بھال کرتے تھے وہ کراچی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے جبکہ ان کے بیٹے بیرونِ ملک مقیم تھے۔ جب عمر رسیدہ جوڑے کی ایک بہو ان کے ساتھ رہنے آئیں تو اعجاز کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں۔
اعجاز نے بتایا کہ بزرگ آدمی کی اہلیہ میرے کام سے بہت خوش تھیں مگر جب ان کی بہو نے گھریلو کام کاج کی ذمہ داری سنبھالی تو میرے لیے مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے'۔ بعدازاں اس بزرگ آدمی کی صحت مزید بگڑ گئی اور انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑگیا۔ ہسپتال سے گھر منتقلی کے بعد انہیں ایک اسپیشلائزڈ نرس کی ضرورت تھی۔ اب چونکہ اعجاز کی خدمات درکار نہیں تھیں لہٰذا انہیں کام سے فارغ کردیا گیا۔
مزید پڑھیے: کورونا کے سبب بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کی کہانی
اعجاز دوسری ملازمت کی تلاش میں مصروف ہیں لیکن تاحال انہیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اچھی ملازمتیں بڑی مشکل سے ملتی ہیں اور ان دنوں تو یہ تلاش اور بھی مشکل ہوگئی ہے کیونکہ لوگ نئے عملے کو ملازمت پر رکھنے سے گھبرا رہے ہیں کہ کہیں بغیر علامات کے خطرناک وائرس کے شکار یہ افراد ان کے اہل خانہ میں بھی وائرس منتقل نہ کردیں۔
طویل گھنٹوں تک عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کا کام کرنے والے اعجاز جیسے کئی مرد و خواتین نرس اسی طرح کے کٹھن حالات سے گزر رہے ہیں۔
کئی لوگ اپنے گھریلو ملازمین کو کسی نہ کسی وجہ سے ملازمت سے نکال رہے ہیں۔ گھروں میں مریضوں کی پیشہ ورانہ انداز میں دیکھ بھال کرنے والوں کی اس طرح اچانک ملازمتوں سے محرومی سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے اور ان کے پاس گھر کا خرچہ چلانے کے لیے آمدنی کا کوئی اور ذریعہ بھی دستیاب نہیں۔
حمیدہ کو صغریٰ نے اپنی والدہ کی دیکھ بھال کے لیے ملازمت پر رکھا تھا۔ ان کی ذمہ داریوں میں عمر رسیدہ خاتون کو نہلانے، وقت پر کھانا کھلانے، دوائی دینے جیسے روزمرہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ گھر میں ایک سے دوسری جگہ لے جانے میں مدد کرنا شامل تھا۔ اکثر اوقات انہیں بہلا پھسلا کر کھانا کھلانا پڑتا تھا۔
حمیدہ کہتی ہیں کہ 'اماں بعض اوقات جب اپنے کپڑے میلے کردیتی تھیں تو ان کے کپڑے دھونے میں مجھے عار محسوس نہیں ہوتی تھی، حالانکہ یہ کام میری ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا، مگر میں نے ان کا بالکل اپنی والدہ کی طرح خیال رکھا'۔
لیکن چند ماہ قبل حمیدہ کو بھی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ لاک ڈاؤن کے باعث صغریٰ کا پورا دن گھر پر ہی گزرنے لگا اس لیے انہوں نے سوچا کہ وہ کسی ملازم کے بغیر خود ہی اپنی والدہ کی دیکھ بھال کرسکتی ہیں۔ حمیدہ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ 'شاید صغریٰ چند روپے بچانا چاہتی تھیں'۔
اپنی تمام ذمہ داریاں احسن انداز میں انجام دینے کے باوجود ملازمت سے نکالے جانے پر انہیں صدمہ پہنچا ہے۔ جہاں عام حالات میں بھی نئی ملازمت ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں تھا، اب اس وبا کے دور میں بھلا وہ کس طرح روزگار کا دوسرا ذریعہ تلاش کرپائیں گی؟
وہ روزانہ 12 گھنٹے کام کرنے کے عوض ماہانہ 20 ہزار روپے کماکر گھر کے 8 افراد کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'مجھے نہیں معلوم کہ میں اب کیسے اپنے بچوں کا پیٹ بھروں گی اور گھر کا کرایہ ادا کروں گی۔ میرے شوہر کی صحت انہیں زیادہ محنت والا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور میری ساس بھی مختلف امراض میں مبتلا ہیں اور ان کے لیے باقاعدگی سے دوائیں خریدنا پڑتی ہیں'۔
مزید پڑھیے: خونخوار 'مزدور' سے بچنا ہوگا
حمیدہ کی خواہش ہے کہ کم از کم ان کے بیٹے پڑھ لکھ جائیں لیکن موجودہ حالات میں اگر انہوں نے جلد آمدن کا کوئی مناسب ذریعہ نہیں ڈھونڈا تو انہیں اپنے بیٹوں کو اسکول سے نکلوانا پڑسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میری بیٹیاں بڑی ہو رہی ہیں۔ ان کی شادیوں کے لیے میں چند روپے بچانا چاہتی ہوں لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں۔ اب یا تو میں اپنے گھر والوں کا پیٹ پالوں یا پھر بیٹیوں کی شادی کے لیے پیسے بچاؤں۔ خدانخواستہ اگر گھر کا کوئی دوسرا فرد بیمار پڑجاتا ہے تو میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ان کا کسی سرکاری ہسپتال میں بھی علاج کروا سکوں'۔
وہ لوگ جنہوں نے اپنے عمر رسیدہ والدین کی دیکھ بھال کے لیے گھریلو ملازمین، اٹینڈینٹ اور نرسوں کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے ان کا یہ خدشہ قابلِ فہم ہے کہ یہ ملازمین ان کے گھر پر وائرس کی منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ چونکہ عمر رسیدہ افراد وائرس کا آسان شکار ثابت ہوسکتے ہیں اس لیے لوگ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ باہر کا کوئی شخص ان سے رابطے میں نہ آئے۔
ایک طرف جہاں بہت سے خاندانوں نے اپنے گھریلو ملازمین کو بامعاوضہ چھٹیوں پر بھیج دیا ہے وہیں دیگر نے محض چند روپے بچانے کی خاطر انہیں ملازمت سے ہی فارغ کردیا ہے۔ حمیدہ کی سابقہ مالکن کی طرح ان کا بھی یہ ماننا ہے کہ چونکہ اب یہ لوگ لاک ڈاؤن کے باعث گھر تک محدود ہیں یا پھر کمپنی نے گھر سے کام کی سہولت دے رکھی ہے ایسے میں وہ خود سے کام کرکے اپنے پیسے بچاسکتے ہیں۔
نسیمہ کو چند ہفتے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ نسیمہ کو وہیل چیئر تک محدود ایک عمر رسیدہ خاتون کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'باہر کے افراد سے براہِ راست تعلق سے بچنے اور وائرس سے محفوظ رہنے کی خاطر میں اپنی ہفتہ وار چھٹی کے دن بھی کام کرنے اور وہیں ٹھہرنے پر بھی راضی تھی‘۔
اس عمر رسیدہ خاتون کو نہانے، کھانا کھانے، دوائی دینے اور نیبولائزیشن کے لیے مدد کی ضرورت پڑتی تھی۔ چونکہ نسیمہ دوائیوں کے نام پڑھ سکتی تھیں اس لیے مالکن کو ہر ہفتے دوائی کے ڈبوں کو تیار کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
اگرچہ نسیمہ کو ملازمت سے نکالنے کی کوئی وجہ تو نہیں بتائی گئی لیکن انہیں لگتا ہے کہ 'میڈیم نے تھوڑی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھوڑے پیسے بچانے کا سوچا ہوگا۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اب چونکہ وہ خود گھر میں موجود ہیں اس لیے بغیر کسی کی مدد کے میرے حصے کے کام انجام دے سکتی ہیں'۔
مزید پڑھیے: پاکستان کے لیے بُری خبر: مزید عالمی وبائیں پھن پھیلائے کھڑی ہیں
نسیمہ کے شوہر دیہاڑی دار مزدور ہیں جو پہلے ہی بے روزگار بیٹھے تھے کیونکہ زیادہ تر صنعتیں یا تو بند ہوگئیں یا پھر کم عملے کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔
نسیمہ نے بتایا کہ 'میں نے ایک برس پہلے اس وجہ سے وہاں دیکھ بھال کا کام شروع کیا کیونکہ گھریلو ملازمہ کے طور پر جتنے پیسے میں کمایا کرتی تھی اس کے مقابلے میں وہاں مجھے زیادہ تنخواہ کی پیش کش کی گئی تھی، بس اس لیے میں ایک دن کی ہفتہ وار چھٹی کی اجازت کے ساتھ اپنی مالکن کے پاس رہنے پر راضی ہوگئی تھی۔ میری بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ رہی ہیں اور میں ان کی شادیوں کے لیے پیسے بچانا چاہتی تھی مگر بڑھتی مہنگائی اور زندگی کی بڑھتی قیمت کے باعث کچھ بھی نہیں بچا پائی ہوں'۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے شوہر کو جب کوئی کام نہیں مل سکا تو نسیمہ نے سوچا کہ حالات معمول پر آنے اور ان کے شوہر کو کوئی کام ملنے تک وہ اپنی تنخواہ سے گھر کے اخراجات پورے کرلیں گی۔ 'مگر اب چونکہ ہم دونوں بے روزگار بیٹھے ہیں اس لیے ہماری معمولی بچتیں بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ہم سڑکوں پر آجائیں گے۔ میرے پاس گھر کا کرایہ دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ان حالات میں ہم کہاں جائیں اور کیا کریں؟'
مگر پھر شہلا جیسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس اپنی والدہ کی دیکھ بھال کرنے والوں کو معاوضے کے ساتھ چھٹیوں پر بھیجنے کا آپشن نہیں تھا اس لیے انہوں نے ان کو اضافی پیسوں کی پیش کش کی اور انہیں ہفتہ وار چھٹی کے دن بھی اپنے ہی گھر پر ٹھہرانے کا فیصلہ کیا۔ شہلا نے بتایا کہ 'میں انہیں چھٹی کے دن باہر بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتی کیونکہ اس طرح وہ گھر پر وائرس لاسکتے ہیں۔ میری والدہ بہت ہی کمزور ہیں اور آسانی سے کورونا وائرس کی زد میں آسکتی ہیں'۔
شہلا خود ملازمت پیشہ خاتون ہیں اور ان کے بچے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان دنوں لاک ڈاؤن کے باعث وہ گھر سے ہی کام کر رہی ہیں۔ ان کی والدہ ان کے ساتھ رہتی ہیں اس لیے انہیں ان ملازمین پر نظر رکھنے میں آسانی ہوتی ہے جو ان کی والدہ کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ تاہم قریب ایک ماہ بعد جب انہیں محسوس ہوا کہ گھریلو ملازمین کو گھر کی یاد ستانے لگی ہے اور ایک ملازمہ کام چھوڑنے کا بھی سوچ رہی ہے اس لیے شہلا کو انہیں ہفتہ وار چھٹی دینے کا رسک اٹھانا پڑ گیا۔
مزید پڑھیے: اسمارٹ لاک ڈاؤن کی نئی اصطلاح اور ہماری ڈیڑھ ہوشیاری
شہلا نے بتایا کہ 'میں نے انہیں باہر دیگر لوگوں سے میل جول یا اپنے محلے میں گھومنے پھرنے سے باز رہنے کی سختی سے ہدایات دی ہیں۔ اگر یہ ملازمائیں چھوڑ کر چلی جاتیں تو مجھے ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑجاتا۔ میری والدہ کو ان کی عادت ہوچکی ہے اور اگر میں ان کی جگہ کسی اور کو کام پر رکھتی تو مجھے نہیں لگتا کہ میری والدہ ان کے ساتھ زیادہ بہتر محسوس کرتیں'۔
یہ دراصل ان عمر رسیدہ افراد کے ساتھ بڑا ہی سنجیدہ مسئلہ ہے، خاص طور پر جو ڈیمنشیا جیسی یادداشت متاثر کرنے والے بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد ان کا خیال رکھنے والوں کے عادی بن جاتے ہیں اور کسی بھی قسم کی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے۔
اس کے علاوہ مخلص، قابل اور بھروسہ مند ملازمین مشکل سے ہی ملتے ہیں۔ شہلا کہتی ہیں کہ، 'میں کسی کے بھی ساتھ اپنی والدہ کو نہیں چھوڑ سکتی۔ دفتر میں کام کرتے وقت مجھے یہ تسلی ہونی چاہیے کہ گھر پر ان کی اچھی دیکھ بھال کی جا رہی ہے'۔
شہلا ایک باضمیر مالکن ہیں لیکن تمام ملازمین اتنے خوش نصیب نہیں ہوتے۔ وہ افراد جنہیں ان دنوں ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے انہیں نئی ملازمتوں کو تلاش کرنے میں کافی پریشانی کا سامنا ہے۔
فی الوقت تو اس عالمی وبا کے ٹلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور اب حکومت نے بھی خبردار کردیا ہے کہ پاکستانیوں کو ایک طویل عرصے تک اسی کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنی پڑسکتی ہے، اس لیے عارضی بے روزگاری کی زد میں آئے ان نیم ہنرمند لیکن کم آمدن والے افراد پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان کی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان کے بارے میں محض زبانی کلامی باتوں سے ان کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ مضمون ڈان کے ایؤس میگزین میں 5 جولائی 2020ء کو شائع ہوا۔