غیرقانونی پلاٹس الاٹمنٹ اسکینڈل: میر شکیل کی ضمانت کی درخواست مسترد
لاہور ہائی کورٹ نے غیرقانونی پلاٹس الاٹمنٹ اسکینڈل میں گرفتار ملزم میر شکیل کی ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی۔
بدھ کو جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بینچ نے میر شکیل کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست مسترد کر دی
نیب کی طرف سے اسپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ میر شکیل الرحمن کے خلاف ریفرنس میں مدعی اور گواہ اسد کھرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
ملزم میر شکیل کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ رانا ثنااللہ، ملزم میر شکیل کیس کی کارروائی دیکھنے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی، ممبر پاکستان بار کونسل احسن بھون، ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ کے ساتھ ساتھ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
ملزم میر شکیل کے خلاف دائر ریفرنس کو بھی ضمانت کی درخواست میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس: میر شکیل الرحمٰن کے جوڈیشل ریمانڈ میں 22 روز کی توسیع
ملزم میرشکیل الرحمٰن نے کا درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نیب نے بے بنیاد اور جهوٹے مقدمے میں گرفتار کیا ہے اور جنگ اور جیو کی طرف سے عمران خان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر گرفتار کیا گیا۔
درخواست گزار نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 54 پلاٹس کی استثنیٰ قانون کے مطابق دی۔
درخواست گزار کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیئرمین نیب میر شکیل کے خلاف انکوائری شروع کرنے کے مجاز نہیں تھے اور میر شکیل پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لیے اختیارات سے تجاوز کا الزام بے بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس کو ترمیم کے بعد جب نافذ کیا گیا اس میں قانون ساز نے مخصوص نکات بھی بتائے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا کہ یہ ساری باتیں آپ نے کل کر دی تھیں کوئی نئی بات کریں جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے اصل مسودے میں اعانت جرم کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: غیرقانونی پلاٹ کیس: نواز شریف اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریفرنس دائر
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بعد اعانت جرم کو مؤثر با ماضی نہیں کیا گیا اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی بھی اعانت جرم کے الزام کی بنیاد پر دائر درخواست میں ضمانت منظور کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز کیس میں عدالت نے اعانت جرم کے آنے والے قانون کو مؤثر با ماضی نہ ہونا قرار دیا ہے اور خصوصی قوانین کی موجودگی میں کسی بھی کیس میں ٹرائل شروع کرنے کا اختیار ریاست کو نہیں دیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم میر شکیل کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایل ڈی اے کا اپنا قانون اور عدالتیں موجود ہیں اور میرے کل کے دلائل کو غلط رنگ دیا گیا کہ دیگر ملزموں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ دیگر ملزموں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو میر شکیل کو گرفتار کرنا آئین کے آرٹیکل 25 اے کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میر شکیل کو جب بھی طلب کیا گیا وہ پیش ہوئے اور نیب کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ ملزم طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب نے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف اراضی کیس میں نواز شریف کو طلب کرلیا
وکیل صفائی نے مزید کہا کہ ایسا شخص جس کا گھر یہاں ہے، جو ہر طلبی نوٹس پر پیش ہوتا رہا اور شریک ملزم گرفتار نہ ہوں تو اس کے بارے میں کہنا درست نہیں کہ ملزم بیرون ملک فرار ہو جائے گا۔
امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ نیب کو 54 کنال 5 مرلہ کی زمین پر کوئی اعتراض نہیں ہے، نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو انکوائری میں جوڈیشل نظر ثانی کرنے کا اختیار نہیں ہے، نیب نے قومی خزانے کو ایک دھیلے کے نقصان کی بھی نشاندہی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پورے جوہر ٹاؤن میں پلاٹ کی ایک ہی قیمت ہے، 33 کنال نہر کنارے زمین کے بدلے میر شکیل کو 9 کنال زمین دی گئی، 124 کنال اراضی جو ایکوائر کی گئی 200 سے 300 گز دوری پر واقع تھی جبکہ 58 کنال 5 مرلے کی ایگزمپشن کو نیب تسلیم کرتا ہے۔
میر شکیل کے وکیل نے مزید کہا کہ جوہر ٹاؤن میں 14 ہزار پلاٹس عام عوام کو فروخت کرنے کے لیے پڑے تھے، ایگزمپشن پالیسی میں کہا گیا ہے کہ الاٹیز کو زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے جبکہ زمین ایکوائر ہونے کے بعد ایوارڈ میں ترمیم کی گئی اور محمد علی کے 7 ورثا کو شامل کیا گیا جبکہ محمد علی کے قانونی ورثا کو بھی ایوارڈ کے حساب سے کم زمین الاٹ کی گئی۔
انہوں نے مزید مؤقف اپنایا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بھجوائی گئی سمری میں کہیں بھی رعایت نہیں مانگی گئی، 1986 میں جب میر شکیل کو پلاٹس الاٹ ہوئے تب ایل ڈی اے کا جوہر ٹاؤن کے لیے کوئی منظور شدہ ماسٹر پلان موجود نہیں تھا اور ماسٹر پلان 27 اگست 1990 کو منظور ہوا۔
مزید پڑھیں: ڈی جی نیب کی ڈگری سے متعلق بات کرنے پر میر شکیل کو گرفتار کیا گیا، اعتزاز احسن
وکیل صفائی نے کہا کہ اس کیس میں 14 کروڑ 34 لاکھ کا نقصان ہونے کا صرف ایک الزام لگایا گیا ہے۔
اس موقع پر جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا کہ ابھی آپ نے کہا کہ قومی خزانے کو نقصان نہیں ہوا، اب آپ نقصان کو تسلیم کر رہے ہیں جس پر میر شکیل کے وکیل نے جواب دیا کہ 58 کنال 5 مرلے کی زمین کی حد تک کوئی نقصان نہیں، اضافی گلیاں شامل کرنے کا الزام لگا کر نقصان کا ذکر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 64 لاکھ روپے واجبات کی ادائیگی کا بعد میں جواب دیا گیا اور 1992 میں نواز شریف کی حکومت نہیں تھی، 1992 میں واجبات کی ادائیگی کے نوٹس کے جواب کے بعد ایل ڈی اے کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1998 میں گھر مکمل ہوا اور ایل ڈی اے نے سرٹیفیکیٹ جاری کیا، 2016 میں پھر سے میر شکیل کی جائیداد کے کیس پر جائزہ لیا گیا۔
ایڈووکیٹ امجد پرویز نے مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر میر شکیل نے کوئی ناجائزہ فائدہ حاصل کیا ہو تو قیمت کی جانچ کی کمیٹی کے ممبران بھی اس میں ملزم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میر شکیل اراضی کیس: نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کیلئے عدالت سے رجوع کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ 1990 میں ایل ڈی اے کی پالیسی میں تبدیلی آئی اور پرائس اسسمنٹ کمیٹی نے دوبارہ رقم مانگی، زمین کی قیمت کے معاملے پر میر شکیل کی فائل کا ایل ڈی اے میں کئی بار جائزہ لیا گیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ایل ڈی اے پالیسی کا مؤثر باماضی اطلاق کر کے میر شکیل کا نقصان کیا گیا، میر شکیل کی زمین 2 ہزار 88 روپے فی کنال کی لے کر 60 ہزار روپے فی کنال میں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل کو اکٹھا بلاک الاٹ کرنے میں کوئی لا قانونیت نہیں ہے، میرے 20 سال کے تجربے میں میر شکیل کیس میں جیسے جلد بازی میں گرفتاری گئی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کی جانب سے دلائل مکمل کرنے کے بعد نیب کے اسپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ 12 مارچ 2020 کو انکوائری کی منظوری ہوئی اور ملزم کی طرف سے صرف عبوری تعمیر کی درخواست دینے کی دلیل بے بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ میر شکیل 54 کنال زمین کے حقدار تھے لیکن انہیں 56 کنال زمین الاٹ کی گئی اور 3 جولائی 1986 میں ہمایوں فیض رسول نے میر شکیل کی درخواست پر خصوصی رعایت دینے کا کہا۔
فیصل رضا بخاری نے کہا کہ ہمایوں فیض رسول کو اس کیس میں ملزم بنایا گیا ہے، ایک کنال کے 15 پلاٹ ایگزمپشن پالیسی کے تحت دیئے جانے تھے، باقی زمین کی ایگزمپشن پر ایک کنال سے کم سائز کے پلاٹس 3 مختلف جگہوں پر دیے جانے تھے۔
مزید پڑھیں: میر شکیل کی گرفتاری کے خلاف 3 اپوزیشن جماعتوں کی درخواست دائر
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق ریفرنس کے گواہ پٹواری بشیر احمد کی رپورٹ نشاندہی کے مطابق 59 کنال 3 مرلے زمین میر شکیل کے پاس ہے، پالیسی کے مطابق میر شکیل 54 کنال زمین ایگزمپشن کا حقدار تھا۔
انہو نے کہا کہ ایل ڈی اے نے 56 کنال الاٹ کرنے کی سمری بنائی اور میر شکیل 59 کنال 3 مرلے 77 فٹ رقبے پر قابض ہے۔
سید فیصل رضا بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم میر شکیل کا تمام رقم ادا کرنے کا دعویٰ بھی بے بنیاد ہے اور 29 اکتوبر 1992 میں 64 لاکھ روپے کی رقم شاہینہ شکیل کو ادا کرنے کا نوٹس ایل ڈی اے نے بھجوایا، شاہینہ شکیل نے مطلوبہ رقم ایل ڈی اے کو ادا نہیں کی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم نے زیادہ زمین حاصل کرنے کے بعد رقم جمع نہیں کروائی اور اسی بنیاد پر 14 کروڑ 34 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور 2016 میں میر شکیل نے 12 لاکھ روپے فی مرلے کے حساب سے 3 مرلے کی رقم جمع کروائی۔
ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل کے گھر میں 4 کنال 2 مرلے کی سڑکیں شامل کی گئی ہیں اور میر شکیل کی عبوری تعمیر کی درخواست پر ایل ڈی اے کا جواب خود ملزم نے وصول کیا۔
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق ملزم کا ایگزمپشن نہ مانگنے کا مؤقف حقائق کے برعکس ہے اور ایل ڈی اے نے میر شکیل کی عبوری تعمیر کی درخواست پر ملزم کی تحریری رضا مندی مانگی جو ملزم نے دی۔
یہ بھی پڑھیں: اراضی کیس: میر شکیل الرحمٰن کا 14 روزہ عدالتی ریمانڈ منظور
انہوں نے بتایا کہ ہمایوں فیض رسول 83 برس کا ہے اور دوسرا ملزم میاں بشیر 73 سال کا عمر رسیدہ شخص ہے، ہمایوں فیض رسول چل نہیں سکتا مگر ہم نے اسے ملزم بنایا ہے جبکہ کیس کے ملزم میاں نواز شریف بیرون ملک ہیں۔
فیصل رضا بخاری نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم سے قبل میر شکیل کے خلاف انکوائری منظور ہو چکی تھی اور یہ انکوائری 2019 میں منظور ہوئی جبکہ ترمیم 2020 میں ہوئی۔
لاہور ہائی کورٹ نے غیرقانونی پلاٹس الاٹمنٹ اسکینڈل میں ڈھائی گھنٹے فریقین کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد میر شکیل کی ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی۔
میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری
خیال رہے کہ 12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔
ترجمان نیب نوازش علی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ادارے نے 54 پلاٹوں کی خریداری سے متعلق کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو لاہور میں گرفتار کیا۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن متعلقہ زمین سے متعلق نیب کے سوالات کے جواب دینے کے لیے جمعرات کو دوسری بار نیب میں پیش ہوئے تاہم وہ بیورو کو زمین کی خریداری سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔
نیب کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1986 میں غیر قانونی طور پر یہ زمین میر شکیل الرحمٰن کو لیز پر دی تھی۔
مزید پڑھیں: میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف اہلیہ کی درخواست پر نیب سے جواب طلب
واضح رہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو 28 فروری کو طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق انہیں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہر ٹاؤن فیز 2 کے بلاک ایچ میں الاٹ کی گئی زمین سے متعلق بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 5 مارچ کو نیب میں طلب کیا گیا تھا۔
دوسری جانب جنگ گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے، جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔
بعد ازاں گرفتاری کے اگلے ہی روز نیب نے انہیں احتساب عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا جس میں 25 مارچ کو ہونے والی پیشی پر 13 روز کی توسیع کی گئی تھی۔
اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست مسترد کردی تھی جبکہ ان کے ریمانڈ میں دو مرتب توسیع کردی گئی تھی۔