افسانہ: کھڑکی سے جھانکتی زندگی
پھر وہ جہاز کے عرشے سے کود گیا اور اس سے قبل کہ اس کا وجود نیلے پانیوں کے سینے کو چیرتا ہوا گہرائیوں میں اتر جاتا، اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے اس خواب کے بارے سوچنے کے لیے پھر سے آنکھیں موند لیں۔ اسے جتنا یاد رہا تھا وہ بس یہ کہ ایک چوہا اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا اور پھر اچانک اس کی طرف بڑھنے لگا۔ چوہا جوں جوں اس کی طرف بڑھ رہا تھا اس کا حجم بھی بڑھتا جا رہا تھا اور اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس کا شکار ہونے کے بجائے کود جائے۔
اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کب اور کتنے گھنٹوں سے سو رہا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دن مشرق سے ابھرتا اور پھر خالی سڑکوں، چوراہوں، گلیوں سے رینگتا ہوا مغرب کو جا نکلتا مگر گھروں میں داخل نہیں ہوتا تھا۔
تنہائی کی مکڑی نے گزشتہ 22 دنوں میں اس کے گرد ایسا جالا بُن دیا تھا جس کے خلا گھٹن اور اذیت سے پُر تھے۔
اس نے شیشے کے مرتبانوں میں پڑی ہر کھانے والی شے کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ 4 یا پھر 5 دنوں کے بعد کھانے کو کچھ نہیں ہوگا اور بھوک اس کو تنہائی سمیت نگل لے گی۔
اسے یہاں اس کمرے میں آئے 22 دن گزر چکے تھے۔ اسے اپنی زندگی کا بس ایک ہی واقعہ یاد تھا کہ جب اس نے عرشے پر کھڑے ہوکر بندرگاہ، اس کے ساتھ بسے شہر اور جہاز کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہاتھ لہراتے لوگوں کو دیکھا تھا، تو زندگی اپنی تمام تر رونقوں کے ساتھ موجود تھی۔
پھر وہ جب جہاز کی اندرونی سیڑھیاں اترا تو جابجا لاشیں تھیں جن کا اندازہ اسے عرشے پر ایک شیڈ کے نیچے 2 دن گزارنے کے دوران ہوچکا تھا۔ وہ کیسے چند بیمار لوگوں کے ساتھ جہاز سے اترا اور پھر کیسے اس کمرے تک پہنچا یہ اس کی یادداشت سے محو ہوچکا تھا یا پھر وہ زندہ رہنے تک اسے یاد نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس نے آگے بڑھ کر کمرے کی کھڑکی کھولی تو چُندھیا دینے والی روشنی سے بچنے کے لیے بے ساختہ اس کا ہاتھ آنکھوں کے سامنے آگیا۔
کچھ لمحے بعد اس نے دیکھا کہ گلی میں موت کے خوف کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس نے جب گلی کا دائیں اور بائیں جانب جائزہ لینے کے بعد نگاہیں اوپر کو اٹھائیں تو وہ ایک ایسی کھڑکی پر جا ٹھہریں جو گلی کی دوسری جانب والے گھر کی چھت پر بنے کسی اسٹور روم کی تھی۔
اس نے شیشے سے بند کی گئی کھڑکی کے پار اس چہرے کو بغور دیکھا جس پر پڑی زردی کی تہہ اس راز کو چھپانے میں کامیاب نہ ہوسکی تھی کہ وہ کبھی بہت خوبصورت رہ چکی ہے۔
اس نے اِدھر سے ہاتھ ہلایا۔ اگلے ہی لمحے لڑکی نے بھی ہاتھ ہلایا اور آخر وہ اشاروں کے ذریعے بتانے میں کامیاب ہوگئی تھی کہ وہ وبا کا شکار ہوچکی ہے، اس لیے یہاں موجود ہے۔ لیکن اس نے ہاتھوں سے بتایا کہ وہ جلد ٹھیک ہوجائے گی۔
پھر وہ کتنی ہی دیر زمانے بھر کی باتیں ہاتھوں سے کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے درمیان تیرگی کی دیوار دبیز ہونے لگی۔ وہ واپس آکر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اگلی صبح جب وہ کھڑکی پر آیا تو لڑکی نے ہاتھ ہلایا اور بیک وقت دونوں نے محسوس کیا کہ ابھی زندگی موجود ہے۔ اشارے پھر سے گفتگو کرنے لگے تھے۔ اس دوران لڑکی نے ایک دفعہ بے ساختہ پیچھے کی طرف گردن گھمائی اور پھر مختصر انتظار کا اشارہ کرکے غائب ہوگئی۔
کچھ دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں کٹورا تھا جسے اس نے منہ سے لگا رکھا تھا۔ شاید نیچے سے کسی نے مائع سے بھرا یہ کٹورا اس کے لیے اوپر پہنچایا تھا۔
اس نے کھڑکی بند کرنے سے پہلے، لڑکی کو ہاتھ ہلا کر مسکراتے دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے چہرے کی زردی ماند پڑگئی ہے۔
اگلے روز جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا کہ وہ پچھلے 2 دن کے معمول سے زیادہ دیر تک سویا رہا۔ اس نے بریڈ اٹھائی اور کھڑکی پر آگیا۔ مگر وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ اس نے کچھ لمحے بعد غور سے دیکھا تو ایک کپکپاتے ہاتھ کی انگلیاں نیچے کھڑکی کے سرے پر موت کا ساز بجا رہی تھیں، اور پھر وہ ہاتھ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوا۔
اس نے تیسری منزل پر بنے اس کمرے کی کھڑکی سے زمین کو گھورتے ہوئے اس پر دونوں پاؤں رکھتے ہوئے سوچا کہ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ بھی وبا کی اس گھٹن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہوجائے۔
تبصرے (7) بند ہیں