پاکستان، ہمسایہ ممالک سے پرامن باہمی تعاون پر یقین رکھتا ہے، عمران خان
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن باہمی تعاون پر یقین رکھتا ہے۔
وزیراعظم نے پاکستان کی سلامتی کے ایجنڈا پر بھارت کے تنازع کے امکان سے متعلق اعلیٰ فوجی قیادت اور انٹیلی جنس معاونین سے مشاورت کی۔
اس حوالے سے وزیراعظم آفس نے کہا کہ وزیراعظم نے اندرونی اور داخلی سیکیورٹی سلامتی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح اجلاس کی سربراہی کی۔
اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی، چیف آف ایئر اسٹاف ایئر مارشل مجاہد انور خان، ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نعمان ذکریا شریک تھے۔
اجلاس کے شرکا کی فہرست سے یہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس زیادہ معلوم ہوا جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شریک نہیں تھے جنہوں نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے پر خود کو قرنطینہ کرلیا ہے، مشیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی بھی شریک نہیں تھے جو معمول کے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا حصہ ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ مذکورہ اجلاس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی چینی ہم منصب وانگ یی سے ٹیلیفونک گفتگو کے تناظر میں ہوا جس میں انہوں نے علاقائی سلامتی صورتحال کو تیزی سے 'بگڑتا' قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’بھارت جعلی خبروں، پروپیگنڈا مشینری تیز کر کے حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی مخالف اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری کردہ میڈیا بیان میں بھارت پر مرکوز زبان واضح طور پر لائن آف کنٹرول کی جارحانہ صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ اجلاس کا مرکزی ایجنڈا تھا۔
بیان کے مطابق اجلاس میں عزم کیا گیا کہ ہر قیمت پر پاکستان کی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے گا۔
ساتھ ہی اس میں یہ عزم بھی کیا گیا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن باہمی تعاون کی بقا پر یقین رکھتا ہے لیکن ہمارے پاس اپنے لوگوں اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی خواہش اور صلاحیت دونوں موجود ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا اور بین الاقوامی برادری پر نوٹس لینے پر زور دیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستانی اسٹریٹجسٹ کو اندیشہ ہے کہ بھارت، جو اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے غیر قانونی الحاق کے بعد وادی میں صورتحال معمول پر لانے میں ناکام رہا ہے، اسے عسکری، صحت اور معاشی بحرانوں کے ملاپ سے پاکستان کے ساتھ ایک تنازع کی طرف بڑھایا جارہا ہے، جسے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے باعث شدید نقصان پہنچا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں 45 سال میں پہلی مرتبہ بھارتی فوجیوں اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے ۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں ایل او سی پر اضافی فوج کی تعیناتی کا بھارتی دعویٰ مسترد
خدشہ ہے کہ بھارت- نیپال سرحد پر شروع ہونے والا تنازع اور کورونا وائرس کے باعث بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال نے بھارتی رہنماؤں کی مایوسی کو بڑھادیا ہے جو اس دوران کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان، بھارت کے لیے واضح انتخاب ہے کیونکہ اس کی حکومت اچھے سے جانتی ہے کہ پاکستان مخالف جذبات اس کے حلقوں میں اچھی طرح چلتے ہیں۔
یہاں یہ مدنظر رہے کہ گزشتہ سال بھارت اپنے 2 طیاروں سے محروم ہوا تھا اور اس کا ایک پائلٹ پکڑا گیا تھا جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے کامیابی کے طور پر پیش کیا تھا اور انتخابات جیتے تھے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ چین سے جھڑپ میں 20 سپاہیوں کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر وہی چال چلی اور دہلی میں پاکستانی مشن کے عہدیداران پر جاسوسی کا الزام لگا کر اسلام آباد کو دہلی میں سفارتکاروں کی تعداد نصف کرنے کا کہا اور اسی طرح اسلام آباد میں اپنے ہائی کمشنرز کی تعداد میں کمی کی۔
شاہ محمود قریشی نے وانگ یی کو بتایا تھا کہ بھارتی اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں وزرائے خارجہ نے دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے اتفاق کردہ تزویراتی مشاورت بڑھانے اور امن اور استحکام کے مشترکہ مفادات کے مجموعی فروغ کے لیے ہر سطح پر تعاون بڑھانے پر عملدرآمد کا عزم کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ دونوں وزرائے خارجہ نے خطے کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کے لیے ملاقات کا فیصلہ بھی کیا۔
یہ خبر 4 جولائی، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی