• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

جج کی برطرفی کے بعد اب عدلیہ ان کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے، مریم نواز

شائع July 3, 2020
—فائل فوٹو: اے پی
—فائل فوٹو: اے پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام آباد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی برطرفی سے متعلق خبروں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'آج کا فیصلہ بے شک سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست ہے، اس فیصلے نے نواز شریف پر ہی نہیں بلکہ عدل و انصاف کے دامن پر لگا ایک بڑا داغ بھی دھو دیا'۔

مریم نواز کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو برخاست کردیا۔

ذرائع کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان کی سربراہی میں انتظامی کمیٹی نے آج (بروز 3 جولائی) اسلام آباد احتساب عدالت کے جج کی برطرفی کی منظوری دے دی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر مریم نواز نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ میں کہا کہ 'اب عدلیہ کے وقار اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ جج کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا جائے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ملک کے منتخب سابق وزیر اعظم (نواز شریف) ہیں، جو اپنا آپ اور اپنا خاندان بکھرتا دیکھتے ہیں، بڑے سے بڑا نقصان اٹھا لیتے ہیں مگر آئین اور قانون کو سربلند رکھتے ہیں'۔

مریم نواز نے کہا کہ اب عدلیہ کے وقار اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ جج ارشد ملک کے فیصلوں کو بھی پھاڑ کر پھینکا دیا جائے۔

اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی برطرفی سے خبروں پر کہا تھا کہ مذکورہ فیصلے سے 'سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے'۔

شہباز شریف نے العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں نواز شریف کو 7 برس قید کی سزا سے متعلق کہا تھا کہ 'میرے بھائی کی سزا کو کالعدم قرار دینا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہورہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کا فیصلہ دراصل نوازشریف کی بے گناہی کا ثبوت ہے'۔

جج ویڈیو لیک کیس

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ویڈیو اسکینڈل: سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ میں او ایس ڈی بنا دیا گیا

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ناصر بٹ نے 5 اکتوبر کو احتساب عدالت کے سابق جج محمد ارشد ملک کے خلاف شواہد جمع کروائے تھے۔

ناصر بٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے دستاویزات میں ان کے اور جج ارشد ملک کے درمیان گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں، بات چیت کی ویڈیو کم آڈیو ریکارڈنگ کی ٹرانسکرپٹ، درخواست گزار کا بیان حلفی، آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کی فرانزک رپورٹس اور دونوں افراد کے درمیان بات چیت کی اصل آڈیو اور ویڈیو-کم-آڈیو ریکارڈنگز کی کاپیوں پر مشتمل یو ایس بی شامل ہیں۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ مذکورہ دستاویزات کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کے ریکارڈ میں شامل کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ویڈیو میں موجود جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کو دباؤ کے تحت سزا سنانے کا اعتراف کیا تھا۔

یہ بھی واضح رہے کہ ویڈیو اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ معاملے کی انکوائری کے لیے جسٹس سردار احمد نعیم کو انکوائری جج مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انتظامی کمیٹی کو پیش کی، تاہم ارشد ملک نے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024