• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ملائیشیا نے سی اے اے سے لائسنس کی تصدیق کے منتظر پاکستانی پائلٹس کو معطل کردیا

شائع July 3, 2020
اتحاد ایئر ویز کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے جاری کردہ لائسنس والے پائلٹس کا آڈٹ کررہی ہے۔ فائل فوٹو:ڈان
اتحاد ایئر ویز کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے جاری کردہ لائسنس والے پائلٹس کا آڈٹ کررہی ہے۔ فائل فوٹو:ڈان

جہاں پاکستانی حکام اپنے پائلٹس کی اسناد کی تصدیق کر رہے ہیں وہیں ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا ہے۔

دریں اثنا اتحاد ایئر ویز کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے جاری کردہ لائسنس والے پائلٹس کا آڈٹ کررہی ہے۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ میں وفاقی وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے 262 پائلٹس نے ’مشکوک‘ لائسنس حاصل کر رکھے ہیں جس کے بعد مختلف ممالک کے ایوی ایشن حکام نے وہاں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینیئرز کی ڈگری کی تصدیق طلب کی ہے۔

ملائشیا کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ایم) نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ملائیشیا میں تمام غیر ملکی پائلٹس کی جانچ پڑتال کے بعد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پائلٹس کے لائسنس جعلی یا مشکوک؟ اصل معاملہ آخر ہے کیا؟

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ریگولیٹرز نے بتایا کہ ملک میں 20 سے کم پاکستانی پائلٹس ہیں۔

قومی پرواز ملائیشیا ایئر لائنز، مالینڈو ایئر اور ایئر ایشیا کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی پاکستانی پائلٹ کام نہیں کر رہا ہے۔

سی اے اے ایم نے کہا کہ پائلٹ مقامی آپریٹرز جیسے فلائنگ اسکول ، فلائنگ کلب اور تربیتی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ لائسنس رکھنے والوں کی تصدیق کے لیے کوششیں کررہے ہیں، اس میں پائلٹ، پاسپورٹ نمبر، پاکستانی پائلٹ لائسنس نمبر، سی اے اے ایم کی توثیق نمبر (اگر دستیاب ہو) اور ملائییشیا لائسنس کی تبدیلی - پی پی ایل / سی پی ایل / اے ٹی پی ایل نمبر کی جانچ کی جارہی ہے۔

پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کو کی گئی ای میل میں انہوں نے کہا کہ 'فی الحال تمام آپریٹرز کو اپنے پائلٹس کو فلائیٹ آپریشنز سے عارضی طور پر معطل کرنا ہوگا جن کے لائسنس پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے تھے اور یہ اس وقت تک ہوگا جب تک کہ ان کے لائسنس کی تصدیق پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی اے اے) کی جانب سے نہ ہوجائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک بار تصدیق کا عمل مکمل ہوجائے تو سی اے اے ایم آپریٹرز کو فوری طور پر ان کی بحالی کے لیے مطلع کردے گا'۔

اتحاد ایئرویز کی جانب سے ریکارڈ کا جائزہ

علاوہ ازیں اتحاد ایئرویز نے کہا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کی جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی (جی سی اے اے) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ ایئر لائن میں ملازمت کرنے والے پاکستانی پائلٹس کی اہلیت اور لائسنس کی تصدیق کی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہم ان پائلٹس کی ڈگری کی تصدیق کر رہے ہیں تو ہم ایک اضافی آڈٹ کے ساتھ مزید احتیاطی تدابیر کا مظاہرہ کررہے ہیں'۔

اس حوالے سے جی سی اے اے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وہ اپنے ریکارڈ پر نظرثانی کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ 'پی سی اے اے کے جاری کردہ مشکوک لائسنس' اس کے نظام میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔

جی سی اے اے نے کہا کہ وہ پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں تاہم انہوں نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ آیا اس نے ملک میں جاری لائسنس والے پائلٹس کے خلاف ابتدائی کارروائی کی ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرانزک انکوائری میں 2010 سے 2018 تک 236 مشکوک پائلٹس سامنے آئے، علی زیدی

قبل ازیں جی سی اے اے نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل حسن ناصر جامی کو ایک خط لکھ کر ایئرکرافٹ مینٹیننس انجینیئرز اور فلائٹ آپریشن آفیسرز کے سی اے اے سے جاری کردہ لائسنس کی تصدیق کا مطالبہ کیا تھا۔

پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

بعدازاں 29 جون کو وینتام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پرمقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔

جس کے بعد 30 جون کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوگا۔

اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔

جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجنیئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024