وفاق کا صوبوں سے اپنے مالیاتی کمیشن ایوارڈز کے اعلان کا مطالبہ
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کے اجلاس کے دوران صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ اضلاع میں فنڈز کی تقسیم میں کسی بھی قسم کے ’فرق‘ کو ختم کرنے کے لیے صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) ایوارڈز کا اعلان کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ قومی ایئرلائن پی آئی اے سمیت ملک کی تمام ایئر لائنز کے پائلٹس اور دیگر عملے کی پیشہ ورانہ ڈگریوں اور تکنیکی مہارتوں کا جائزہ لینے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ کابینہ نے امپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) پینشن کو 6 ہزار 500 روپے سے بڑھا کر 8 ہزار 500 روپے ماہانہ کرنے کی بھی منظوری دے دی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ عمران خان کو اپوزیشن کی ‘مائنس ون‘ (وزیر اعظم کی برطرفی) کی خواہش کا خوف نہیں ہے جبکہ وہ اور ان کی حکومت یقینی طور پر اپنی 5 سالہ مدت پوری کرے گی۔
مزید پڑھیں: 'پائلٹس سے متعلق معلومات موجود ہیں، 200 فیصد تصدیق کے بعد ہی منکشف کریں گے'
علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اجلاس کے بعد ڈان کو بتایا کہ ’وزیر اعظم نے تمام صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) ایوارڈز کا اعلان کریں تاکہ مرکز کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز کی مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے‘۔
بعد ازاں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیراطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم نے صوبوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صوبائی مالیاتی کمیشن کو فعال کریں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جب اجلاس میں اضلاع خصوصاً پنجاب میں فنڈز کی تقسیم میں ’فرق‘ کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا تو وزیر اعظم نے کہا کہ جب مرکز نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت کسی صوبے کو فنڈز جاری کیے ہیں تو نچلی سطح پر رقوم کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا صوبے کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیکھا گیا ہے کہ ترقیاتی فنڈز کا زیادہ تر حصہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کے انتخابی حلقوں میں خرچ ہوا ہے، ’ماضی میں ہم نے لاہور میں فنڈز کا غیر معمولی استعمال دیکھا ہے‘۔
ادھر فواد چوہدری نے کہا کہ صوبائی مالیاتی کمیشن سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے نچلی سطح (صوبوں سے یونین کونسلز) تک فنڈز کی منتقلی کے لیے تشکیل دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مشرف دور کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پی ایف سی کو ختم کردیا اور وہ اس کے بعد سے آج تک موجود نہیں۔
تاہم شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ تنظیموں جیسے پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے فنڈز کے غلط استعمال اور ضرورت سے زیادہ اخراجات کو روکنے کے لیے وزیر اعظم نے وفاقی وزیر خسرو بختیار کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا جو 90 دن میں ایک رپورٹ تیار کرے گی اور ترقیاتی فنڈز کے مؤثر استعمال کے بارے میں اپنی سفارشات پیش کرے گی جبکہ اس سلسلے میں کابینہ نے خیبرپختونخواہ کے لیے ای ٹینڈرنگ سسٹم کی منظوری بھی دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو ترقیاتی فنڈز جو مالی سال 20-2019 کے اختتام پر ختم ہوچکے ہیں، انہیں ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے کراچی اور وفاقی دارالحکومت منتقل کرنے کی ہدایت کی۔
مزید برآں پی آئی اے کے پائلٹس کی مبینہ جعلی اور مشتبہ پیشہ ورانہ ڈگریوں کے معاملے پر کابینہ نے قومی ایئرلائنز سمیت تمام مقامی ایئر لائنز کے پائلٹس اور تکنیکی عملے کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کے لیے جائزے کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے 28 پائلٹس کو جعلی ڈگری رکھنے کی وجہ سے ملازمت سے ہٹا دیا گیا ہے اور دوسروں کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر اسامہ بن لادن شہید، تو وزیراعظم کا اے پی ایس، آپریشن ضرب عضب پر کیا مؤقف ہے، بلاول
انہوں نے کہا ‘جن پائلٹس کو کلیئر کیا گیا ہے اور طیارے اڑا رہے وہ بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘۔
امریکا میں روزویلٹ ہوٹل سمیت پی آئی اے کے اثاثوں کی فروخت یا نجکاری سے متعلق سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت پی آئی اے کے اثاثوں کے مؤثر استعمال کے لیے ایک شفاف راستہ تلاش کرنے پر کام کر رہی ہے۔
علاوہ ازیں کابینہ نے مہنگے بجلی کے منصوبوں سے اپنی توجہ ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں جیسے مؤثر منصوبوں کی طرف لے جانے کا فیصلہ بھی کیا۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ملک میں بجلی کے مہنگے منصوبے شروع کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں لوگ پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں، ہم مہنگے بجلی کے منصوبے پیش کرکے آنے والی نسلوں سے برا بھلا نہیں سننا چاہتے‘۔
اپوزیشن کے ’مائنس ون‘ فارمولے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اس کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور وزیر اعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گے، تحریک انصاف عمران خان کی وجہ سے ہے اور عمران خان تحریک انصاف کی وجہ سے نہیں ہیں، اپوزیشن رہنماؤں نے اپنی بدعنوانی چھپانے کے لیے ایسے بے بنیاد معاملات اٹھائے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی وزیر اعظم پر تنقید پر رد عمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘بلاول کو سیاست میں زمینی حقائق کا کوئی تجربہ، آگاہی نہیں ہے کیونکہ انہیں یہ اپنی والدہ اور دادا سے ورثے میں ملی ہے، دوسری طرف عمران خان نے اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے دوران ہر چیز کا تجربہ کیا ہے‘۔