’آن لائن گیم میں ناکامی‘، ایک اور نوجوان نے خود کشی کرلی
لاہور: پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑے پیمانے پر کھیلے جانے والے آن لائن گیم میں ایک ٹاسک مکمل کرنے میں ناکامی کے بعد ایک اور نوجوان لڑکے نے خودکشی کرلی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سالہ شہریار کو چھت کے پنکھے سے لٹکا پایا گیا اور اس کے پاس ایک خود کشی کا نوٹ بھی موجود تھا جس میں اس نے پلیئر ان نون بیٹل گراؤنڈ (پب جی) کو ’قاتل آن لائن گیم‘ قرار دیا تھا۔
کینٹ ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) فرقان بلال نے ڈان کو بتایا کہ لڑکے نے ایک نامعلوم لڑکی کو انتہائی قدم اٹھانے کے مناظر دکھانے کے لیے ویڈیو کال بھی کی تھی۔
مزید پڑھیں: آن لائن گیم پب جی کی عادی خاتون کا طلاق کا مطالبہ
ایس پی نے بتایا کہ لڑکا اپنے بھائی کے ساتھ پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرائے کے کوارٹر میں رہتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب لڑنے کے خودکشی کی اس وقت اس کا بھائی گھر پر نہیں تھا،
پولیس افسر نے کہا کہ پولیس نے فرانزک تجزیہ کرنے کے لیے اس کا مبینہ خودکشی کا نوٹ اور موبائل فون ضبط کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہریار کا بھائی ایک سیلز مین تھا اور پولیس اس لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے لڑکے نے خود کو پھانسی پر لٹکانے سے قبل ویڈیو کال کی تھی۔
ایس پی نے مزید کہا کہ ’ہم ایک دکاندار سے بھی تفتیش کریں گے جو پب جی گیم میں اس کا پارٹنر تھا‘۔
مبینہ خودکشی کے نوٹ میں لڑکے نے اپنی موت کی ایک وجہ کو پب جی بتایا تھا اور اس نے اپنی غلطیاں کرنے پر دکاندار سے معافی مانگی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اردن میں آن لائن گیم 'پَب جی' پر پابندی عائد
خیال رہے کہ رواں ماہ کا یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں ایک کم سن لڑکے نے پب جی کھیلتے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
آن لائن گیم پر پابندی کے لیے لاہور پولیس نے پہلے ہی انسپیکٹر جنرل پولیس کے ذریعے اعلی حکام کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) اشفاق احمد خان کی سفارشات پر لاہور سٹی پولیس آفیسر نے اس سلسلے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔
خیال رہے کہ چند ماہرین کے مطابق پب جی بچوں کی ذہنی صحت کو متاثر کررہا ہے۔
ان کے مطابق متعدد ممالک اسی طرح کی شکایات پر کھیل پر پابندی لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ایک اور ’بلیو وہیل چیلنج‘ نامی آن لائن ’خودکشی پر ابھارنے والے گیم‘ کی اطلاع دی گئی تھی جس کے ذریعے نوجوانوں کو 50 روز کے لیے 50 ٹاسک دیئے جاتے تھے۔